اسلام آباد -- پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی سفارت خانے اور اس کے قونصل خانوں نے انہیں بیجنگ میں آئندہ 2022 کے سرمائی اولمپکس کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے کے لیے رقم ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔
بیجنگ اولمپکس، جو 4 فروری سے شروع ہونے والے ہیں اور 20 فروری تک جاری رہیں گے، چین کی طرف سے اپنی ایغور اقلیت پر مسلسل ظلم و ستم کے باعث تنازعات سے بھرے ہوے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ ایسے وقت پر بھی ہو رہے ہیں جب پاکستان میں چین مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ بیجنگ کا ایغور اور دوسرے اقلیتی مسلمان گروہوں سے کیا جانے والا سلوک اور اس کے ساتھ ہی چینی اداروں کی طرف سے اسلام کی بے حرمتی شامل ہے۔
ایک چینی آن لائن خوردہ فروش کی طرف سے 2020 میں، مسلمانوں کی نماز کی چٹائیوں کی آرائشی قالین کے طور پر فروخت، نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے صارفین میں غم و غصے کو جنم دیا۔
صحافیوں کو بھیجی گئی ایک ای میل کے مطابق، جسے پاکستان فارورڈ نے بھی دیکھا ہے، اسلام آباد میں چینی سفارت خانہ اور اس کا قونصل خانہ صحافیوں کو "مغربی، چین مخالف قوتوں، این جی اوز اور میڈیا کی تردید کرنے کے لیے مواد لکھنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے سرمائی اولمپکس کو سیاسی اور بدنام بنایا ہے"۔
سفارت خانے نے یہ ای میل اس ماہ کے آغاز میں بھیجی تھی۔
چینی مشنز نے پاکستانی صحافیوں پر زور دیا کہ وہ عالمی ایغور کانگریس (ڈبلیو یو سی) اور دیگر اویغور تنظیموں کو بدنام کریں اور بیجنگ کے خلاف ان کے الزامات کی تصویر کشی جھوٹے اور بے بنیاد کے طور پر کریں۔
ڈبلیو یو سی، میونخ میں مقیم جلاوطن ایغوروں کا عالمی ادارہ ہے جو بیجنگ کی مطلق العنانیت، مذہبی عدم برداشت، دہشت گردی اور سنکیانگ میں ایغور مسلم آبادی پر ظلم و جبر کی پالیسی کے خلاف مہم چلاتا ہے۔
'صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی'
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اردو روزنامے کے ایڈیٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "چینی سفارتی حکام نے صحافیوں اور مدیران کو اولمپک گیمز کے آغاز سے قبل، ان کے حق میں مضامین اور خبروں کی ایک سیریز کی اشاعت کے لیے ایک بڑی رقم کی پیشکش کی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "لیکن اکثر پاکستانی صحافیوں نے ایسی کہانیاں شائع کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ نہ صرف صحافتی اخلاقیات بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی شہری، بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں جیسے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کام کی بدولت، بیجنگ کی طرف سے ایغوروں پر کیے جانے والے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے بخوبی واقف ہیں۔
بیجنگ کو گزشتہ چند سالوں سے، مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی "بھیانک اور منظم زیادتیوں" پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
چین نے ایک ملین سے زائد مسلمانوں کو، جن میں اویغور اور قازق اور کرغیز نسل بھی شامل ہیں، تربیتی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔
آزادانہ تحقیقات اور کیمپ کے سابق قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے انٹرویوز کیمپوں کے اندر جسمانی اور ذہنی اذیتوں، برین واشنگ، منظم عصمت دری، اور جنسی استحصال کو سامنے لائے ہیں، جو بالکل جیلوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔
2022-2018 کے "زیادہ چینی بنانے" کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر، چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے حکام مسجدوں کے گنبد، مینار اور اسلامی فن تعمیر کی دیگر علامتوں کو بھی ہٹا رہے ہیں اور مساجد کو لاؤڈ سپیکر پر اذان (نماز کے لیے بلانا) دینے پر پابندی لگا رہے ہیں۔
بین الاقوامی بائیکاٹ
بین الاقوامی حکومتوں اور عالمی تنظیموں نے بیجنگ میں ہونے والے 2022 کے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
عالمی آئمہ کونسل نے 23 دسمبر کو دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ سرمائی کھیلوں میں شمولیت یا شرکت سے گریز کریں۔
مسلمان مذہبی رہنماؤں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واقعہ "ایسی ظالم اور جابر حکومت کے مفادات کو براہ راست پورا کرتا ہے جو اویغوروں کی نسل کشی اور نسلی تطہیر کی ذمہ دار ہے۔"
اس میں کہا گیا کہ "چینی حکومت جبر، تشدد اور آمریت کے ذریعے چینی مسلمانوں کے بنیادی انسانی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔"
"ہم مظلوم ایغور مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ متحد ہیں۔"
تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق، عالمی آئمہ کونسل، تمام اسلامی فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان مذہبی رہنماؤں کی، دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہے۔ یہ بغداد میں قائم ہے۔
کونسل کا یہ قدم امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے گزشتہ سال بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
کراچی کے ایک مذہبی رسالے کے مدیر شبیر فاروقی نے کہا کہ عالمی بائیکاٹ -- جو خاص طور پر چین کی جانب سے سنکیانگ میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر ہوا -- نے سی سی پی کی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔
فاروقی نے کہا کہ "یہی وجہ ہے کہ چینی سفارتی مشن، اولمپکس کے حق میں جھوٹی پروپیگنڈہ مہم چلانے اور سنکیانگ میں مسلم اقلیتوں پر [بیجنگ] کے اپنے جبر کو چھپانے کے لیے بھاری رقم خرچ کر رہا ہے۔
پاکستان میں، حالیہ برسوں میں اسلامی جرائد میں ایسے مضامین اور اداریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں چین پر تنقید کی گئی ہے، خصوصی طور پر مذہبی حلقوں میں۔
ڈبلیو آئی او این کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2020 کے اواخر میں پاکستانی حکومت کی طرف سے اویغور معاملے پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک نے پاکستان میں مذہبی رائے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
اس تحقیق میں ایسے متعدد اسلامی جرائد کا جائزہ لیا گیا، جو ملک کے سرکردہ مدارس اور مذہبی جماعتوں کے ذریعہ شائع ہوتے ہیں اور جن میں ترجمان القرآن، الاعتصام، اسوہ حسنہ، اشراق، اہل حدیث، محدث، پیام، اور البرہان شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انہیں پتہ چلا کہ "چینی حکومت کے ساتھ عدم اطمینان بڑھ رہا ہے"۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مذہبی رسائل میں، عالمی سطح پر مسلمانوں کے جبر کے تناظر میں، سنکیانگ پر بحث کرنا ایک بات رہی ہے۔