حقوقِ انسانی

تفتیش سے سنکیانگ میں مسلم خواتین کی نس بندی کی مہم کی تفصیلات آشکار

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

چین کے مغربی سنکیانگ کے علاقے میں ایک مسلمان خاتون ہوتن بازار میں اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

چین کے مغربی سنکیانگ کے علاقے میں ایک مسلمان خاتون ہوتن بازار میں اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

بیجنگ -- ایک حالیہ تفتیش نے، چین کی طرف سے مسلمان خواتین کو نشانہ بنائے جانے والی ایک مہم کی بھیانک تفصیلات آشکار کی ہیں جس میں سنکیانگ کے علاقے میں بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے جاری کوششوں کے حصہ کے طور پر زبردستی امتناع حمل اور نس بندی کی جاتی ہے۔

سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے ایغور، قازق اور دیگر مسلمان خواتین اور مردوں کے ساتھ انٹرویوز اور سرکاری اعداد و شمار اور مقامی میڈیا کا جائزہ لینے سے، چینی حکومت کی طرف سے برادری کے تولیدی حقوق کو کنٹرول کرنے کی "جبری کوشش" کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ بات نیویارک ٹائمز نے 10 مئی کو بتائی ۔

ایک ازبک نژاد خاتون نے بتایا کہ جب چین کی حکومت نے 2017 میں حکم دیا کہ سنکیانگ کی خواتین کو انٹرایوٹرائرین مانع حمل آلات (آئی یو ڈیز) لگائیں تو اس نے کیسے استثنیٰ کی استدعا کی۔

قیلینور صدیق جن کی عمر اس وقت تقریبا 50 سال تھی، نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کی پیدائش کی حدود کی پابندی کی ہے اور ان کا صرف ایک بچہ ہے۔

استنبول میں 22 فروری کو چینی قونصل خانے کے قریب ایغور اقلیت کے ارکان نے پلے کارڈز تھام رکھے ہیں جب وہ "ازسرِنو تعلیم کے کیمپوں" میں قید اپنے رشتہ داروں کے بارے میں اطلاعات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ [اوزان کوس/ اے ایف پی]

استنبول میں 22 فروری کو چینی قونصل خانے کے قریب ایغور اقلیت کے ارکان نے پلے کارڈز تھام رکھے ہیں جب وہ "ازسرِنو تعلیم کے کیمپوں" میں قید اپنے رشتہ داروں کے بارے میں اطلاعات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ [اوزان کوس/ اے ایف پی]

لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کارکنوں نے دھمکی دی کہ اگر اس نے حکم پر عمل نہ کیا تو وہ اسے پولیس کے پاس لے جائیں گے۔

صدیق نے بیان کرتے ہوئے کہ جب ایک سرکاری ڈاکٹر نے دھاتی آلہ استعمال کرتے ہوئے، امتناعِ حمل کے لیے آئی یو ڈی لگا دی تو "مجھے لگا کہ میں اب ایک نارمل عورت نہیں رہی ہوں"۔

آئی یو ڈی سے انہیں درد اور خون کی بھاری مقدار کے بہہ جانے کا سامنا کرنا پڑا اور 2019 میں انہوں نے نس بندی کروانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے نیدرلینڈز سے، جہاں وہ 2019 میں چین سے بھاگ جانے کے بعد سے آباد ہیں، کہا کہ "حکومت بہت زیادہ سخت ہو گئی تھی اور میں آئی یو ڈی کو استعمال نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے اپنے بارے میں ہر امید ختم ہو گئی تھی"۔

دیگر خواتین نے بتایا ہے کہ کیسے انہیں حمل ضائع کروانے پر مجبور کیا گیا، اگر ان کے بہت سے بچے ہیں یا وہ مانع حمل آلات لگوانے سے انکار کریں تو بھاری جرمانے ادا کرنے کے لیے کہا گیا اور انہیں ایسی ادویات لینے پر مجبور کیا گیا جن سے ان کی ماہواری رک گئی۔

گزشتہ سال کے آخیر میں، صوبائی دارالحکومت اروومکی کے ایک کمیونٹی کارکن نے، 18 سے 59 سال کے درمیان تمام خواتین کو حکم دیا کہ وہ حمل اور مانع حمل معائنہ کروائیں۔

صدیق نے دی نیویارک ٹائمز کے ساتھ وی چیٹ میسیجز سے لیا گیا ایک اسکرین شارٹ سانجھا کیا جس کے مطابق، کارکن نے لکھا کہ "اگر آپ ہم سے دروازے پر لڑیں گے۔ اور اگر آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا، تو آپ کو پولیس اسٹیشن لے جایا جائے گا"۔

ایک پیغام میں کہا گیا کہ "اپنی جان کو داؤ پر نہ لگائیں۔ ایسی کوشش بھی نہ کریں"۔

بیجنگ نے کم از کم 400 جگہوں پر جن میں "سیاسی تعلیمی" کیمپ، مقدمات سے قبل کے حراستی مراکز اور جیلیں شامل ہیں، میں ایک ملین سے زیادہ ایغور اور دیگر ترک مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے۔

لاکھوں دیگر نگرانی اور کنٹرول کے ایک سخت نطام کے تحت زندگیاں گزار رہے ہیں۔

تشدد، اجتماعی عصمت دری، مارپیٹ

جرمنی کے محقق ایڈرین زینز کے مطابق، 2015 سے 2016 کے دوران، سنکیانگ میں نس بندی کی شرح میں چھہ گنا اضافہ ہوا اور یہ 60,000 آپریشنز تک ہو گئی جبکہ باقی کے چین میں ان کی تعداد میں کمی ہوئی۔

گلنار عمرزاخ نے قازقستان سے، جہاں وہ اس وقت بھاگ کر گئی تھیں جب حکام نے انہیں اور ان کی دو بیٹیوں کو قید کرنے کی دھمکی دی تھی، نے دی نیویارک ٹائمز کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ "سنکیانگ کی خواتین خطرے میں ہیں"۔

جب 2015 میں ان کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہوا تو شمالی گاؤں میں حکام نے پیدائش کا ریکارڈ رکھا۔ تین سال بعد، انہوں نے پیدائش کی حد کی خلاف ورزی کرنے پر اسے 2,700 ڈالر کے برابر جرمانہ لگایا۔

اس نے رشتہ داروں سے رقم لی اور پھر ملک سے بھاگ گئی۔

انہوں نے کہا کہ "لوگ ہمارے لوگوں کی جگہ دوسروں کو دینا چاہتی ہے"۔

گرفتاری کا خطرہ حقیقت ہے۔

زینز کی تحقیق میں انکشاف کیا گیاکہ الی پریفیکچر، سنکیانگ کے ایک ضلع نے سرکاری نوٹس میں مشورہ دیا ہے کہ جن خواتین نے غیر قانونی حمل ختم کرنے یا جرمانے ادا کرنے سے انکار کیا انہیں نظر بندی کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔

براہ راست اور گواہان کے بیانات کے مطابق کیمپوں میں "خوفناک اور منظم زیادتی" ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کے لئے زندگی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔

سابقہ قیدیوں اور ایک گارڈ نے اس سال کے شروع میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ کیمپوں میں مسلمان خواتین کو منظم زیادتی، تشدد اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے بجلی کے جھٹکوں سے تشدد جس میں محافظوں کی طرف سے بجلی کے ڈنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے زیادتی، بھوکا رکھنا، مار پیٹ، اجتماعی زیادتی اور زبردستی نس بندی کو بیان کیا۔

تورسنے ضیاودون جنہوں نے قازقستان کا سفر کرنے پر، 10 ماہ الی پریفیکچر کے کیمپ میں گزارے کہا کہ "آپ ان کا کھلونا بن جاتے ہیں"۔

تین مواقع پر، انہیں ایک تاریک کوٹھری میں لے جایا گیا جہاں نقاب پہنے ہوئے دو یا تین مردوں نے ان سے زیادتی کی اور ان کے اندر زبردستی دخول کے لیے بجلی کی لاٹھیاں استعمال کیں۔ انہوں نے یہ بات امریکہ سے، جہاں اب وہ قیام پذیر ہیں، ایک ٹیلی فون انٹرویو میں دی نیویارک ٹائمز کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ "آپ اس وقت بس مر جانا چاہتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا"۔

چین کی حکومت نے ان کیمپوں، جن کا دفاع چین کی حکومت "ووکیشنل تربیتی مراکز" کے طور پر کرتی ہے جن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اور ملازمت کے مواقع کو بہتر بنانا ہے، میں ہونے والے استحصال کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

سنکیانگ حکومت کے ترجمان سو گوکسانگ نے فروری میں ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ "جنسی تشدد اور تشدد کا کوئی وجود نہیں ہوسکتا"۔

فروری میں اقوامِ متحدہ میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے سنکیانگ میں نسلی اقلیتوں سے چین کے سلوک کو، ملک کی انسانی حقوق کی پیش رفت میں ایک "روشن مثال" قرار دیا تھا۔

چین سے "نسل کُشی" ختم کرنے کے مطالبات

امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے حکام نے بدھ (12 مئی) کو ایک وڈیو کانفرنس میں چین سے مطالبہ کیا کہ وہ ایغور برادری پر اپنا جبر ختم کرے۔

اقوامِ متحدہ (یو این) کے لیے امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے کانفرنس، جسے ہیومن رائٹس واچ کے تعاون کے ساتھ منعقد کیا گیا تھا اور جس میں ایغور افراد کے بیانات بھی پیش کیے گئے تھے، میں کہا کہ "سنکیانگ میں لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی جبری نس بندی کی جا رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم اس وقت تک آواز اٹھانا جاری رکھیں گے جب تک کہ چین کی حکومت انسانیت کے خلاف اپنے جرائم اور ایغور اور سنکیانگ کی دوسری اقلیتوں کی نسل کشی بند نہیں کر دیتی"۔

امریکہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے چین سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کو سنکیانگ تک "فوری، بامعنی اور آزادانہ" رسائی فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ "بڑے پیمانے پر جبری قید، گمشدگیوں اور تشدد کے واقعات کا ثبوت موجود ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر جبری مزدوری اور نس بندی کی خبریں بھی موجود ہیں"۔

انہوں نے ایک وڈیو تبصرے میں، جسے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا گیا تھا، کہا کہ "2017 کے آخیر سے ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو جبری کیمپوں میں غیر قانونی قید میں رکھا گیا ہے"۔

جرمنی کے سفیر کرسٹوف ہیوسن نے مزید کہا کہ "ہم چین سے انسانی حقوق کے عالمی اعلان کا احترام کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور ہم نے چین سے حراستی کیمپوں کو ختم کرنے کے لیے کہا ہے"۔

انہوں نے چین سے سوال کیا کہ "اگر آپ کچھ چھپا نہیں رہے ہیں تو آپ آخیرکار انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کو آزادانہ رسائی کیوں نہیں دیتے ہیں"۔

"چین کے وفد نے ایک بیان میں اصرار کیا کہ " سنکیانگ کی صورت حال اس وقت تاریخ میں سب سے بہترین ہے

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500