نیویارک -- نسلی اقلیتوں کی تمام تر ثقافتی اور مذہبی شناخت اور جمہوری آزادیوں کو مٹانے کی کوشش کر کے، بیجنگ اپنے زیرِ تسلط آبادیوں میں اپنی 'چینی بنانے' کی پالیسی کا روزن وسیع کر رہا ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں جاری ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ چینی حکومت سنکیانگ کے علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ استحصالی سلوک کر کے "انسانیت کے خلاف جرائم" کی مرتکب ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے ساتھ بیجنگ کے بُرے برتاؤ کی تاریخ دو دہائیاں پرانی ہے، مگر سنہ 2013 کے بعد سے صدر شی جن پنگ کے تحت اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
سوموار (19 اپریل) کو ایچ آر ڈبلیو اور سٹینفورڈ لاء سکول کے انسانی حقوق و تنازعات کا حل کلینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قوم پرستی اور اسلاموفوبیا سے تحریک لینے والی، شی کی حکومت نسلی اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ 'چینی بنانے' پر مُصر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، "چینی حکومت نے ترکی النسل مسلمان آبادی کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے -- اور ارتکاب کرنا جاری رکھے ہوئے ہے"۔
مزید لاکھوں جاسوسی کے ایک سخت نظام اور پابندیوں کے تحت جیتے ہیں۔
سنکیانگ میں یغوروں، قازقوں، کرغیزوں اور دیگر گروہوں کی صراحت کرتے ہوئے، اس میں کہا گیا، "کیمپوں کی تخلیق میں چینی حکومت کا بظاہر ہدف ترکی النسل مسلمان ثقافت اور مذہب کو مٹانا ہے۔"
پاکستانی شہریوں کی یغور بیویوں اور بچوں کو بھی مبینہ طور پر چینی حکومت کے بدنامِ زمانہ "تلقینِ عقیدہ کیمپوں" میں رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں سنکیانگ واحد خطہ ہے جہاں مسلمان آبادی اکثریت میں ہے، اور چینی حکام نے خطے کی دو تہائی مساجد اور دیگر مقدس اسلامی مقامات کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے مختلف حیلے بہانے استعمال کیے ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ کی پالیسیاں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے 1998 دستورِ روم کی خلاف ورزی ہیں، جو کہتا ہے کہ ایک شہری آبادی پر وسیع طور پر یا منظم حملے کرنا ایک جرم ہے۔
رپورٹ نے چینی حکومت کو مسلمانوں کی غیر قانونی قید، تشدد اور قتل کے لیے اور ان سے جبری مشقت لینے اور ان پر جنسی تشدد کرنے کے لیے دانستہ پالیسیاں بنانے کا قصوروار بیان کیا ہے۔
بیجنگ کا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا
سنکیانگ میں پہلے حراستی مراکز کی موجودگی سے انکار کرنے کے بعد، بیجنگ میں بعد میں ان کا جواز دیا بطور "تعلیمِ نو" کیمپ جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اور روزگار کے مواقع کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔
آزاد محققین کو معلوم ہوا ہے کہ چینی حکومت نے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو جبراً بانجھ بنایا ہے اور انہیں مجبور کیا کہ پیدائش کے کوٹے سے زائد اسقاطِ حمل کروائیں۔
لیکن بیجنگ نے گزشتہ چند برسوں میں سنکیانگ میں شرحِ پیدائش میں کمی کو بطور انسدادِ دہشت گردی کامیابی سراہا ہے۔
سنکیانگ ترقیاتی تحقیقی مرکز کی جانب سے ایک غیر مطبوعہ مطالعہ کا حوالہ دیتے ہوئے، امریکہ میں چینی سفارتخانے نے 7 جنوری کو ٹویٹ کیا تھا، "سنکیانگ میں [مسلمان] خواتین کے ذہنوں کو آزاد کر دیا گیا اور صنفی مساوات اور تولیدی صحت کو فروغ دیا گیا، جس سے وہ اب مزید بچے پیدا کرنے والی مشینیں نہیں رہ گئیں.
سنکیانگ کے علاقے میں یغور مسلمانوں کے ساتھ حکومتی رویئے پر بڑھتی ہوئی تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے، حکومت نے پراپیگنڈے کی ایک تازہ لہر شروع کر دی ہے۔
آخری کوشش میں سرکاری طور پر تیار کردہ ایک فلم شامل ہے جو "گیتوں کے پر" کہلاتی ہے جس میں سنکیانگ کو نسلی اتصال کا ایک رنگ برنگا دیہاتی گیت دکھایا گیا ہے -- قابلِ ذکر طور پر "تعلیمِ نو" کے کیمپوں، وسیع پیمانے پر جاسوسی اور حتیٰ کہ اسلامی حوالہ جات سے بھی خالی ہے۔
ایچ آر ڈبلیو میں چینی ڈائریکٹر، صوفی رچرڈسن نے کہا، "بیجنگ نے کہا ہے کہ وہ 'حرفتی تربیت فراہم کر رہا ہے' اور 'تعصب پسندی کا خاتمہ کر رہا ہے'، مگر لیکن وہ شوروغل انسانیت کے خلاف جرائم کی بے رحم حقیقت کو نہیں دھندلا سکتا۔