اسلام آباد -- بیجنگ کے یغوروں اور دیگر نسلی اقلیتی مسلمان گروہوں کے ساتھ برتاؤ نیز چینی کمپنیوں کی جانب سے اسلام کے عدم احترام پر پاکستان میں چین مخالف جذبات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
سنکیانگ کے مغربی خودمختار خطے میں گزشتہ چند برسوں سے مسلمان اقلیتوں پر "خوفناک اور منظم بدسلوکی" پر بیجنگ کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
چین نے یغوروں اور نسلی قازقوں اور کرغیزوں سمیت، ایک ملین سے زائد مسلمانوں کو تلقینِ عقیدہ کیمپوں میں ڈال رکھا ہے۔
مقدس مقامات اور اعدادوشمار کی ماڈلنگ کی سیٹلائیٹ سے حاصل شدہ تصاویر کی دستاویز بندی پر مبنی آسٹریلین تزویراتی پالیسی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق، چینی حکام نے تقریباً 16،000 مساجد کو بھی شہید کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے اور یہ کام زیادہ تر گزشتہ تین برسوں میں ہوا ہے۔
پاکستان میں اور خصوصاً مذہبی حلقوں میں، چینی حکومت پر تنقید کرنے والے اسلامی جرائد میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طور پر، ملک کی سب سے بڑی دینی جماعت، جماعت اسلامی پاکستان کے ایک ماہانہ جریدے، ترجمان القرآن نے اپنے نومبر کے شمارے میں ایک مضمون میں اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے کہ امتِ مسلمہ کیسے جغرافیائی طور پر متحد ہے اور اس میں "چینی ترکستان"، سنکیانگ کا دوسرا نام، بھی شامل ہے۔
مضمون میں بتایا گیا ہے کہ، "پاکستانی مسلمان چینی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں مگر ساتھ ہی محسوس کرتے ہیں کہ یغور مسلمانوں کا احترام کیا جانا چاہیئے۔"
دریں اثناء، ویون نے 31 جولائی کو خبر دی تھی کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے یغور کے مسئلے پر کی جانے والی تحقیق میں پتہ چلا کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ بد سلوکی نے پاکستان میں مذہبی رائے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیق میں کئی اسلامی جرائد کا جائزہ لیا گیا، بشمول ترجمان القرآن، الاعتصام، اسوۂ حسنہ، اشراق، اہلِ حدیث، محدث، پیام اور البرہان، جو ملک کے ممتاز مدارس اور دینی جماعتوں کی جانب سے شائع کیے جاتے ہیں، اور چینی حکومت کے ساتھ "بڑھتی ہوئی بے آرامی" کا پتہ چلا۔
اس میں کہا گیا کہ عالمگیر سطح پر مسلمانوں کو دبانے کے تناظر میں سنکیانگ کو زیرِ بحث لانا پاکستان میں دینی جرائد میں ایک عام طریقہ رہا ہے۔
کراچی میں دینی جریدے دین و دنیا کے ایک مدیر، شبیر فاروقی نے کہا، "یہ جرائد پاکستانیوں کو یغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انہیں دینی فرائض جیسے کہ عید منانے، رمضان کے روزے رکھنے اور داڑھی رکھنے سے روکے جانے کے متعلق بتا رہے ہیں۔"
فاروقی نے کہا کہ علمائے دین نمازِ جمعہ کے خطبات میں یغور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر باقاعدگی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی محققین اور جرائد نے بیجنگ کے ان مظالم پر خاموشی اختیار کرنے پر حکومتِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فاروقی نے کہا مگر ذرائع ابلاغ کے ادارے سرکاری حکام-- اس خوف سے کہ اسلام آباد کے بییجنگ کے ساتھ پرکشش تعلقات کو نقصان نہ پہنچ جائے-- کی وجہ سے چینی حکومت کے خلاف پاکستانیوں کی زیادہ تر آوازوں کو نمایاں کرنے میں دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔
چین نے پاکستان کے ساتھ ملک میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں، اور بیجنگ کا وہ قرض جو اسلام آباد کے ذمے ہیں چینی حکام کے لیے فائدے کا مرکزی نقطہ ہے۔
پاکستان کے چوٹی کے عالمِ دین، مفتی تقی عثمانی نے اکثر چین میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر تشویشوں کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اس معاملے میں مداخلت کرے۔
گزشتہ دسمبر میں ایک ٹویٹ میں عثمانی نے کہا، "ہمیں چین میں یغور مسلمانوں کے متعلق پریشان کن خبریں مل رہی ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو اس کی تحقیقات کروانی چاہیئیں اور انہیں انصاف دلانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیئے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اسلام سکھاتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھی مسلمانوں کا خیال رکھنا چاہیئے اور یغوروں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جانا چاہیئے۔
اسلام کا مذاق اڑانا
دوسری جانب، پاکستانی شہریوں اور علمائے دین نے چینی کمپنیوں کی جانب سے اسلام کے عدم احترام پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
جولائی میں، چینی آن لائن اشیاء فروخت کرنے والے ادارے کی جانب سے جائے نمازوں کی فروخت بطور آرائشی غالیچے نے دنیا بھر میں، خصوصاً پاکستان میں گاہکوں میں اشتعال پیدا کیا تھا۔
چین کی خواتین کے فیشن کی ایک کمپنی، شین کی جانب سے فروخت کردہ غالیچے اس چٹائی سے مشابہ تھے جسے مسلمان استعمال کرتے ہیں اور اس پر کعبہ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں نیز ان پر "رمضان کریم" کے الفاظ تحریر تھے۔
لاہور کے ایک مقامی تاجر جو ماضی میں چینیوں کے ساتھ کاروبار کر چکے ہیں، حسن جاوید نے کہا، "چینی کمپنیاں منافع کمانے کے لیے کچھ بھی کریں گی اور نسل پرست یا ثقافتی طور پر بے حس ہیں۔"
جاوید نے کہا، "وہ [چینی کمپنیاں] خراب اشیاء فروخت کرتی ہیں اور تاجروں کو دھوکہ دیتی ہیں۔" انہوں نے حکومتِ پاکستان سے چینی تاجروں کے امور کی نگرانی کرنے اور مقامی کاروباری افراد کو ان کی دھوکہ بازی سے بچانے کا مطالبہ کیا۔
ٹک ٹاک، جو صارفین کو مختصر ویڈیوز کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہے، بیجنگ کی مقامی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی، بائیٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔
تاہم، پابندی کے 10 دن بعد، حکومت نے پاکستانیوں کی ٹک ٹاک تک رسائی بحال کر دی تھی جب اس نے ان اکاؤنٹس کو بلاک کرنے پر رضامندی دی تھی جو مبینہ طور پر "غیر اخلاقی اور ناشائستہ" مواد کا اشتراک کرتے ہیں۔
ٹک ٹاک پر پابندی کے خاتمے سے وہ پاکستانی ناراض ہو گئے جنہوں نے مستقل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سول سوسائٹی کے ایک کارکن جنہوں نے احتجاج کا اہتمام کیا تھا، ماجد یوسفزئی نے کہا، "چینی کمپنیاں، جیسے کہ ٹک ٹاک، پاکستانی معاشرے اور اسلام کا احترام نہیں کرتیں اور ایسے مواد کی اجازت دیتی ہیں جو ملک کے باشندوں میں بے آرامی پیدا کرتا ہے۔"