تعلیم

'کسی چیز کی بھی اجازت نہیں': افغان خواتین کا اقوامِ متحدہ سے اپیل میں تعلیمی حقوق کا مطالبہ

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

12 اگست کو مزار شریف میں افغان برقعہ پوش خواتین نے اپنے تعلیم کے حق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

12 اگست کو مزار شریف میں افغان برقعہ پوش خواتین نے اپنے تعلیم کے حق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

اقوامِ متحدہ -- انجینئرنگ کی طالبہ سمعیہ فاروقی کو دو برس قبل 11 لاکھ سے زائد لڑکیوں اور خواتین کے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے افغانستان سے فرار ہونا پڑا تھا۔

21 سالہ نوجوان، جو اب ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مقیم ہیں، منگل (15 اگست) کے روز اقوامِ متحدہ (یو این) تعلیم انتظار نہیں کر سکتی گلوبل فنڈ کی جانب سے بحران سے نمٹنے کے لیے شروع کی گئی مہم کا چہرہ ہیں۔

AfghanGirlsVoices# کے نعرے کے تحت، یہ آپریشن تمام افغان لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم کے حق کا احترام کرنے کے لیے عالمی مطالبے کی قیادت کر رہا ہے۔

لاتعداد لڑکیوں اور خواتین کو پہلے ہی اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ملک چھوڑنا پڑ چکا ہے۔

افغان لڑکیوں کی روبوٹکس ٹیم کی سابق کپتان سمعیہ فاروقی اب اقوامِ متحدہ کی AfghanGirlsVoices# کے نعرے کے تحت 15 اگست کو شروع کی گئی تعلیم کا انتظار نہیں کر سکتے مہم کا چہرہ ہیں۔ فاروقی 18 فروری کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصویر بنوا رہی ہیں۔ [سمعیہ فاروقی/ X (سابقہ ٹوئٹر)]

افغان لڑکیوں کی روبوٹکس ٹیم کی سابق کپتان سمعیہ فاروقی اب اقوامِ متحدہ کی AfghanGirlsVoices# کے نعرے کے تحت 15 اگست کو شروع کی گئی تعلیم کا انتظار نہیں کر سکتے مہم کا چہرہ ہیں۔ فاروقی 18 فروری کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصویر بنوا رہی ہیں۔ [سمعیہ فاروقی/ X (سابقہ ٹوئٹر)]

مثلاً، فاروقی نے قطر میں ہائی سکول کی تعلیم مکمل کی جب اس نے اپنی روبوٹکس ٹیم "دی افغان ڈریمرز" کی نو دیگر لڑکیوں کے ساتھ سنہ 2021 میں افغانستان چھوڑا تھا۔

اب، وہ قطر سے وظیفے کی بدولت کیلیفورنیا کی سیکرامنٹو سٹیٹ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا دوسرا سال شروع کر رہی ہیں۔

فاروقی نے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا، "اس مہم کا مقصد ایک بار پھر دنیا کی توجہ افغانستان میں لڑکیوں اور [ان کے] تعلیمی مسائل کی طرف دلانا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا، "لگتا ہے کہ افغانستان کو فراموش کر دیا گیا ہے"۔

'جنسی امتیاز'

افغان عوامی زندگی، بشمول تعلیم اور ملازمت، سے خواتین کا تقریباً مکمل اخراج بین الاقوامی برادری کے افغانستان کے حکمرانوں کو امداد دینے اور سرکاری طور پر تسلیم کرنے سے روکنے والے اہم نکات میں سے ایک بن گیا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے منگل کے روز واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا، "دنیا بھر کے درجنوں ممالک بہت واضح ہیں -- کہ کسی بھی زیادہ معمول کے تعلقات کا راستہ ۔۔۔ اس وقت تک مسدود رہے گا جب تک کہ دوسری چیزوں کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی حمایت نہیں کی جاتی"۔

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حالات "عالمی سطح پر بدترین" ہیں، اقوامِ متحدہ کی گزشتہ ماہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی پالیسیاں "جنسی امتیاز" کے مترادف ہو سکتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی تعلیم، سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے منگل کے روز ویڈیو اجلاس میں صحافیوں کو بتایا کہ درحقیقت، افغانستان میں خواتین کے حقوق کی حالت کو "انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے، اور اس پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعے مقدمہ چلایا جانا چاہیے"۔

'تعلیم آزادی کی کُنجی'

ستمبر 2021 میں، حکام نے دسمبر 2022 میں ان پر یونیورسٹی کے دروازے بند کرنے سے پہلے لڑکیوں کے ثانوی سکول جانے پر پابندی لگائی اور پھر افرادی قوت میں ان کی شرکت پر سخت پابندی لگا دی۔

فاروقی کے لیے، یہ حالات قابلِ قبول نہیں تھے: انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ [لڑکیوں اور خواتین] کو مساوی مواقع تک رسائی حاصل ہو، اور ان کی تعلیم تک رسائی ہو، کیونکہ تعلیم آزادی کی کُنجی ہے"۔

انہوں نے منگل کے روز اقوامِ متحدہ کے ایک بیان میں وضاحت کی، "لڑکیوں کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے: سکول، جم، پارک؛ انہیں کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بس گھر میں رہیں"۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ بہت سے خاندانوں کے لیے، ان کی بیٹیوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ شادی ہے، "ان کی رضامندی سے قطع نظر،" انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اپنی ہم جماعتوں میں سے بہت سوں کی زبردستی شادی ہو چکی ہے۔

بیان میں انہوں نے کہا، "مایوسی پھیل چکی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں لڑکیوں کی خودکشی کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ افسوسناک ہے"۔

تعلیم انتظار نہیں کر سکتی مہم کا مقصد اگلے مہینے سوشل میڈیا کے ذریعے اس مسئلے پر عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنا ہے، جس سے افغان لڑکیوں اور خواتین کی آوازوں کو بڑھایا جائے گا جبکہ عالمی رہنماء 18 اور 19 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500