تعلیم

ملالہ کی جانب سے طالبان پر لڑکیوں کی سکول واپسی کی اجازت دینے کے لیے زور

پاکستان فارورڈ

5 جولائی، 2019 کو پیرس میں جی 7 وزراء برائے تعلیم و ترقی کے اجلاس کے دوران نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ایک تصویر بنوا رہی ہیں۔ [کرسٹوف پیٹی ٹیسن/اے ایف پی]

5 جولائی، 2019 کو پیرس میں جی 7 وزراء برائے تعلیم و ترقی کے اجلاس کے دوران نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ایک تصویر بنوا رہی ہیں۔ [کرسٹوف پیٹی ٹیسن/اے ایف پی]

کابل – سکول جانے کی عمر میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی گولی کا نشانہ بننے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے افغانستان کے نئے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے دیں۔

ایک ماہ ہو چکا ہے کہ اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے افغان طالبان نے لڑکیوں کو ثانوی سکولوں میں لوٹنے والوں میں سے خارج کر کے لڑکوں کو واپس اپنی جماعتوں میں جانے کا حکم دیا۔

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سلامتی کو یقینی بنانے اور اسلامی قانون کی اپنی توضیع کے تحت سخت تر تفریق کرنے کے بعد، لڑکیوں کو لوٹنے کی اجازت دیں گے – لیکن متعدد کو اس سے متعلق شبہات ہیں۔

یوسفزئی اور افغان خواتین کے حقوق کے متعدد فعالیت پسندوں نے اتوار (17 اکتوبر) کو شائع ہونے والے کھلے خط میں کہا، "طالبان حکام کے نام ۔۔۔ لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی کو ختم کریں اور لڑکیوں کے سکولوں کو دوبارہ کھولیں۔"

یوسفزئی نے مسلم ممالک کے قائدین سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان پر واضح کریں کہ "مذہب لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنے کی تائید نہیں کرتا۔"

امریکہ کی پشت پناہی کی حامل گزشتہ حکومت میں افغان حقوقِ انسانی کمیشن کی سربراہ شہرزاد اکبر سمیت، مضنفین نے کہا، "اب افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کی ممانعت کرتا ہے۔"

مصنفین نے جی 20 عالمی سربراہان سے افغان بچوں کے لیے ایک تعلیمی منصوبہ کے لیے فوری مالیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس خط کے ہمراہ ایک عرضداشت کو بروز پیر 640,000 سے زائد دستخط ملے۔

تعلیمی فعالیت پسند یوسفزئی کو افغان طالبان کے ایک دھڑے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے 2012 میں اس کے آبائی وطن وادیٴ سوات میں اس وقت گولی ماری جب وہ ایک سکول بس میں سوار تھی۔

تب سے وہ اپنے زخموں کے علاج کے سلسلہ میں انگلستان میں مقیم رہی اور 2014 میں امن انعام حاصل کیا۔

امریکی اور افغان افواج نے اس پر گولیاں چلانے کی منصوبہ بندی کرنے والے ٹی ٹی پی رہنما ملّا فضل اللہ کو 2018 میں صوبہ کنڑ میں ہلاک کر دیا۔

اب 24 سالہ یوسفزئی لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرتی ہے، جبکہ اس کے فلاحی ملالہ فنڈ نے افغانستان میں 2 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

’عہدہائے شکستہ‘

طالبان 1996 سے 2001 تک کے اپنے جابرانہ اقتدار کے لیے بدنامِ زمانہ تھے، جب انہوں نے خواتین کو بڑے پیمانے پر کام کرنے اور سکول سے روک دیا، جس میں ان کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی شامل تھی جب تک کہ ایک مرد رشتہ دار ان کے ساتھ نہ ہو۔

طالبان پر لڑکیوں کی سکول واپسی کے لیے زور دینے میں یوسفزئی اکیلی نہیں۔

اقوامِ متحدہ (یو این) کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریز نے 11 اکتوبر کو طالبان کی افغان خواتین اور لڑکیوں سے عہد "شکنی" پر تنقید کی۔

گوٹیریز نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "افغان خواتین اور لڑکیوں سے طالبان کی عہد شکنی سے مجھے بطورِ خاص تشویش ہے۔"

"میں طالبان سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے وعدے وفا کریں اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت پر مبنی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔"

گوٹیریز نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اس مسئلہ پر "پیچھے نہیں ہٹے گی"، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ادارہ روزانہ کی بنیاد پر طالبان سے اس سے متعلق بات چیت کرتا ہے، جو اگست کے وسط سے برسرِ اقتدار ہیں لیکن جن کی حکومت کو تاحال بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

گوٹیریز نے کہا، "شکستہ وعدے افغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کے شکستہ خوابوں کا باعث بنتے ہیں"، انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2001 سے اب تک تین ملین لڑکیاں سکولوں میں داخل ہوئی ہیں، اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اوسط مدت چھ سال سے بڑھ کر 10 سال ہو گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے تنبیہ کی، "افغانستان کی اسّی فیصد معیشت غیر دستاویزی ہے، جس میں خواتین کا نمایاں کردار ہے۔ ان کے بغیر افغان معیشت اور معاشرے کی واپسی کا کوئی طریقہ نہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500