تعلیم

ملالہ کی وطن واپسی، سیلاب زدگان کی مدد کا عہد

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

پاکستان کی تعلیمی کارکن اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے 12 اکتوبر کو صوبہ سندھ کے شہر دادو میں امدادی مقامات کا دورہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ خواتین، لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ [آمینہ زبیری/ملالہ فنڈ]

پاکستان کی تعلیمی کارکن اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے 12 اکتوبر کو صوبہ سندھ کے شہر دادو میں امدادی مقامات کا دورہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ خواتین، لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ [آمینہ زبیری/ملالہ فنڈ]

کراچی -- نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بدھ (12 اکتوبر) کو پاکستان میں مون سون سے آنے والے تباہ کن سیلاب کے متاثرین سے ملاقات کی۔ ایک دہائی قبل، پاکستانی طالبان کے ہاتھوں گولی مار دیے جانے کے بعد سے، یہ ان کے اپنے آبائی ملک کا صرف دوسرا دورہ تھا۔

اس موسم گرما میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا، 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور کم از کم 28 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔

یوسفزئی نے صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں کیمپوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایسے خاندانوں سے ملاقات کی جو اپنے زیر آب دیہات کو چھوڑ کر آئے ہیں۔

یوسفزئی نے اپنی تنظیم ملالہ فنڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ "جس پیمانے پر تباہی آئی ہے وہ حیران کن ہے اور لوگوں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں پر نفسیاتی اور معاشی اثرات پر مبالغہ نہیں کیا جا سکتا"۔

مینگورہ میں ایک اسکول بس پر حملے کے ایک دن بعد، 11 اکتوبر کو رہائشی احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حملے میں ڈرائیور ہلاک اور ایک طالب علم زخمی ہو گیا تھا۔ [اے ایف پی]

مینگورہ میں ایک اسکول بس پر حملے کے ایک دن بعد، 11 اکتوبر کو رہائشی احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حملے میں ڈرائیور ہلاک اور ایک طالب علم زخمی ہو گیا تھا۔ [اے ایف پی]

ملک کے اندر بے گھر ہونے والے سیلاب سے متاثرہ بچے، 12 ستمبر کو صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک عارضی اسکول میں کلاس میں جا رہے ہیں۔ [اکرم شادید/ اے ایف پی]

ملک کے اندر بے گھر ہونے والے سیلاب سے متاثرہ بچے، 12 ستمبر کو صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک عارضی اسکول میں کلاس میں جا رہے ہیں۔ [اکرم شادید/ اے ایف پی]

"عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ قدم بڑھائیں، اپنے ردعمل کے منصوبوں کو تیز کریں اور پاکستان کی تعمیر نو اور متاثرہ آبادیوں کی مدد کے لیے درکار فنڈز کو متحرک کریں۔"

ملالہ فنڈ نے پاکستان میں تنظیموں کو 700,000 ڈالر تک دینے کا وعدہ کیا ہے۔

تیس لاکھ سے زائد بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا ہے جبکہ ہزاروں اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔

حکام صحت کے دوسرے بحرانوں، جن میں ملیریا، ڈینگی اور غذائی قلت شامل ہیں، سے بھی لڑ رہے ہیں جو ملک بھر میں ہزاروں عارضی کیمپوں میں مقیم سیلاب کے متاثرین میں پھوٹ پڑے ہیں۔

یوسفزئی کی عمر اس وقت صرف 15 سال تھی جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان کی مہم پر، ان کے سر میں گولی مار دی تھی۔

حملے کی 10ویں برسی کے دو دن بعد، وہ منگل کے دن کراچی پہنچیں۔

ملالہ فنڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے دورے کا مقصد "پاکستان میں سیلاب کے اثرات پر، بین الاقوامی توجہ مرکوز رکھنے اور اہم انسانی امداد کی ضرورت کو تقویت دینے میں مدد کرنا ہے"۔

پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ کی جانب سے اگست میں بنائے جانے والے سیلاب سے متعلق امدادی منصوبے میں فوری طور پر 160 ملین ڈالر کی بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا گیا تھا اور امریکہ، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر شراکت داروں سے امداد پہنچتی رہی ہے۔

طلباء اور اساتذہ کا تشدد کے خلاف احتجاج

یوسف زئی، افغانستان کی سرحد کے قریب واقع گہری قدامت پسند وادیِ سوات کے قصبے مینگورہ میں پلی بڑھیں۔

ٹی ٹی پی نے وہاں پر کئی سالوں تک جاری رہنے والی شورش برپا کی جو 2014 میں ایک بڑے فوجی کریک ڈاؤن کے ساتھ ختم ہوئی۔

لیکن گزشتہ ایک سال سے بدامنی میں پھر سے اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں، ٹی ٹی پی نے درجنوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں سے زیادہ تر سیکورٹی فورسز اور طالبان مخالف بزرگوں کے خلاف کیے گئے تھے۔

سوات کے سابق میئر محمد علی شاہ نے کہا کہ "ہم تھک چکے ہیں اور اب لاشیں نہیں اٹھا سکتے۔"

"یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاطت کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرے لیکن ان تمام واقعات پر حکومت کی خاموشی مجرمانہ ہے۔"

منگل کے روز، 5,000 سے زیادہ لوگوں نے مینگورہ کے راستے ایک مرکزی سڑک کو بلاک کر کے احتجاج کیا جو پیر کے روز ایک اسکول بس پر تازہ ترین حملے کا باعث شروع ہوا، جس میں موٹر سائیکل پر سوار ایک نامعلوم حملہ آور نے ڈرائیور کو ہلاک اور 10 یا 11 سالہ لڑکے کو زخمی کر دیا۔

وائس آف امریکہ (وی او اے) نے خبر دی ہے کہ ہجوم نے "ہم اپنی سرزمین پر امن کا مطالبہ کرتے ہیں"کے نعرے لگائے۔ مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’’ہم محنت سے کمائے گئے امن کو تباہ نہیں ہونے دے سکتے‘‘ اور ’’حملہ آوروں کے خلاف ابھی کارروائی کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘‘۔

ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور پولیس نے کہا کہ وہ اس کے مقصد کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

طلباء اور اساتذہ نے امن کا مطالبہ کرنے کے لیے، اسکولوں سے واک آؤٹ کیا - - اس میں وہ اسکول بھی شامل تھا جس میں یوسفزئی نے تعلیم حاصل کی تھی اور جسے ان کے والد نے قائم کیا تھا۔

ایک نجی اسکول کے پرنسپل احمد شاہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ "لوگ ناراض ہیں اور وہ احتجاج کر رہے ہیں۔ تمام پرائیویٹ اسکولوں کے طلباء احتجاج کے لیے نکل آئے"۔

ایک 36 سالہ معالج امجد علی نے کہا کہ "ہمارا احتجاج قاتلوں کی گرفتاری تک جاری رہے گا۔ جب تک اعلیٰ حکومتی اہلکار ہمیں انصاف اور عسکریت پسندی کے خاتمے کی یقین دہانی نہیں کراتے، ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔"

وی او اے نے خبر دی ہے کہ 40 گھنٹے تک جاری رہنے والے دھرنے کے بعد، مظاہرین نے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرات کے بعد، منتشر ہونے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ متاثرین کے اہل خانہ کو مالی معاوضہ دیا جائے گا اور حکام فائرنگ کرنے والے کی گرفتاری اور علاقے میں امن کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500