ماحول

بڑے پیمانے پر سیلاب سے چین کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر توجہ مرکوز

از زرق خان

صوبہ سندھ کے علاقے جوہی میں سیلاب زدہ گاؤں کی 15 ستمبر کو لی گئی ایک فائل فوٹو۔ [زرق خان/ پاکستان فارورڈ]

صوبہ سندھ کے علاقے جوہی میں سیلاب زدہ گاؤں کی 15 ستمبر کو لی گئی ایک فائل فوٹو۔ [زرق خان/ پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- حالیہ ہفتوں میں ملک میں بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب، جس نے ملک میں بہت زیادہ تباہی مچائی ہے، کے بعد سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی پر ایک بحث نے جنم لیا ہے جس میں چین کے بنائے گئے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔ جن پر ملک میں فضائی آلودگی پھیلانے اور مقامی شہریوں کو صحت کے سنگین خطرات سے دوچار کرنے کا الزام ہے۔

پاکستان کی قومی آفات بندوبستی مختار نے ہفتہ (25 ستمبر) کو اپنی تازہ ترین اطلاعات میں کہا کہ جون کے وسط میں شروع ہونے والی مون سون کی شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 1,600 سے زیادہ افراد ہلاک اور 33 ملین کے قریب متاثر ہوئے ہیں۔

ماہرینِ ماحولیات نے کہا کہ اس موسم گرما میں مون سون کی لامتناہی بارشوں کے علاوہ اپریل اور مئی میں گرمی کی ناگہانی لہروں نے سیلاب میں بہت زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم، کچھ تجزیہ کار، ملک میں موسمیاتی بحران کے لیے دیگر عوامل کے علاوہ پاکستان میں چین کے تعمیر کردہ، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

مئی میں راولپنڈی میں سیاسی کارکنوں کے ایک گروپ نے ایک احتجاج میں حصہ لیا جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے موافقت کا منصوبہ بنائے اور کوئلے کے منصوبوں کو بند کرے۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

مئی میں راولپنڈی میں سیاسی کارکنوں کے ایک گروپ نے ایک احتجاج میں حصہ لیا جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے موافقت کا منصوبہ بنائے اور کوئلے کے منصوبوں کو بند کرے۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت، کوئلہ پاکستان کے توانائی کے منصوبوں کا ایک بڑا حصہ بنا ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

چین کی طرف سے مالی اعانت فراہم کرنے والے 18 "ترجیحی" توانائی کے منصوبوں میں سے نو کوئلے سے چلائے گئے تھے۔ یہ خبر تھرڈ پول، ایک نیوز سائٹ جو ہمالیہ فاصل آب کا احاطہ کرتی ہے، نے گزشتہ اکتوبر میں دی تھی۔

کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر، گرین ہاؤس گیسوں کےعالمی اخراج کا پانچواں حصہ پیدا کرتے ہیں -- جو کہ کسی دوسرے واحد ذریعہ سے زیادہ ہے -- اور یہ اخراج موسم کے بگڑتے واقعات، جیسے حالیہ سیلاب سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔

کوئلے کے منصوبے ختم کرنے کا مطالبہ

چین -- جو اب تک دنیا کا سب سے بڑا آلودگی پھیلانے والا اور کوئلے کا سب سے بڑا صارف ہے -- نے ستمبر 2021 میں آب و ہوا کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی عالمی کوششوں میں اپنے تعاون کے حصے کے طور پر، سمندر پار کوئلے کے منصوبوں کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا۔

لیکن عملی سطح پر، چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی بیتاب کوشش میں کوئلے کی پیداوار کو بڑھا رہا ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی (بی یو) کے گلوبل ڈویلپمنٹ پالیسی سنٹر نے فروری میں کہا کہ دنیا بھر میں کوئلے کے ساٹھ بجلی گھر، جن کو چینی ترقیاتی مالیات یا براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے، کام کر رہے ہیں، جو 41 گیگا واٹ (جی ڈبلیو) پیدا کرنے کی صلاحیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

بی یو نے کہا کہ "سب سے زیادہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر جن کے لیے سرمایہ کاری چین نے فراہم کی ہے، پاکستان، ویتنام، انڈونیشیا، بھارت اور جنوبی افریقہ میں ہیں۔"

ماہرینِ ماحولیات نہ صرف ان کی تعمیر پر پابندی بلکہ کوئلے سے چلنے والے موجودہ بجلی گھروں کی جلد از جلد ریٹائرمنٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بی یو نے مزید کہا کہ "کوئلے کے بجلی گھروں کی عام طور پر 30 سے 40 سال کی عمر ہوتی ہے اور چینی سرمایے سے بننے والے کوئلے کے تقریبا تمام بجلی گھر... ایک دہائی سے بھی کم پرانے ہیں"۔

پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی حالیہ تباہی کے بعد، چینی سرمایے سے چلنے والے کوئلے کے منصوبوں کو جلد ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

ماحولیات اور توانائی پر کام کرنے والے ایک محقق امجد سعید، جن کا تعلق لاہور سے ہے، نے کہا کہ "حالیہ سیلاب کے بعد، پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے موافقت کا منصوبہ تیار کرنے اور چینی سرمایے سے چلنے والے کوئلے کے منصوبوں کو بند کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں، فضائی آلودگی اور اقتصادی اثرات کی وجہ سے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو ختم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر، زیر زمین پانی میں بڑھتی ہوئی کمی اور اسے زہر آلودہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں، جو اپنے اردگرد رہنے والی مقامی آبادیوں کو بیمار اور ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں۔"

صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات

کراچی کے قریب واقعہ پورٹ قاسم پاور پلانٹ کی کیس اسٹڈی کرتے ہوئے، بی یو سے وابستہ محققین کے ایک گروپ کو علم ہوا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ شدہ بجلی گھر بھی، غیر محفوظ ماحولیاتی علاقوں میں تجاوز کر سکتے ہیں۔

بی یو نے گزشتہ نومبر میں کہا کہ پورٹ قاسم پاور پراجیکٹ "بجلی گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے، ارد گرد کی آبادی کے لیے صحت کے بڑے خطرات پیدا ہو رہے ہیں اور مطالعہ کی جانے والی آبادی میں سالانہ 49 اضافی اموات کا تخمینہ لگایا گیا ہے"۔

اس کے علاوہ، پاکستان میں چینی سرمایے سے بنائے جانے والے دو دیگر بجلی کے منصوبے -- سندھ میں تھر کول پاور پراجیکٹ اور گلگت بلتستان میں بونجی ہائیڈرو پاور سٹیشن -- مقامی آبادی کی زمینوں پر کھڑے ہیں۔

تھر کے صحرائی علاقے میں منصوبوں کے آغاز کے بعد سے، صوبہ سندھ بھر میں متعدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ابتدائی تحقیق نے پیش گوئی کی ہے کہ تھر کے رہائشیوں کو خطے میں کوئلے سے متعلق منصوبوں کے براہ راست نتیجے کے طور پر، صحت کے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لائنس فار کلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (اے سی جے سی ای)، ایک مقامی پلیٹ فارم جو کہ پاکستان کے سرکردہ ماہرین ماحولیات اور مقامی راہنماوں سے مل کر بنا ہے، نے اپنے 2021 کے مطالعہ"کول رش: تھریوں کے زمینی حقوق پر کوئلے سے بجلی پیدا کیے جانے کے اثرات" میں پاکستان کے "بدقسمتی سے کوئلے کی طرف مڑنے"سے پیدا ہونے والے سماجی اثرات کی مذمت کی۔

اے سی جے سی ای کو علم ہوا کہ اس نے تھر میں گاؤں کی جن 10 برادریوں کا سروے کیا ہے ان میں سے چھ کو "مکمل نقل مکانی" کی توقع ہے۔

سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (ہیلسنکی، فن لینڈ) کے مئی 2020 کے مطالعے کے مطابق، تھر کے کوئلے کی کانوں اور بجلی گھروں سے اخراج 30 سال کے عرصے میں فضائی آلودگی سے متعلق 29,000 اموات کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے۔

اسی طرح، نیلم - جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ، چینی سرمایے سے چلنے والا ایک اور منصوبہ، ممکنہ طور پر اہم جائے روئیدگی اور مقامی زمینوں دونوں پر ہی چڑھا ہوا ہے۔

اکنامک ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ ستمبر میں، چینی انجینئروں نے نیلم - جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کی مرمت کا منصوبہ اچانک ہی ترک کر دیا، جو جولائی میں اس کی ٹیلریس ٹنل میں دراڑ کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔

چینیوں نے مقامی مظاہروں اور "پاکستان پولیس کی قابل اعتماد سیکورٹی پیش کرنے میں ناکامی" کو وجہ قرار دیا۔

معاشی بوجھ

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی مالی اعانت سے چلنے والے کوئلے کے منصوبے، پاکستانی حکومت کے لیے معاشی بوجھ بن گئے ہیں۔

پاکستانی وزارتِ خزانہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "کوئلے کی قیمتوں میں اضافے کے دوران، اب پاکستان کے لیے ملک میں بجلی کے بگڑتے ہوئے بحران پر قابو پانے کے لیے، ان بجلی گھروں کو چلانے کے لیے مہنگا کوئلہ خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔"

اہلکار نے کہا کہ کوئلے کی غیر متوقع بین الاقوامی قیمتیں، چین کی مالی اعانت سے چلنے والے کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے چلانا "ناممکن" بناتی ہیں۔

ڈان نے 10 مئی کو خبر دی کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی چینی فرموں نے مئی میں اپنے پلانٹ بند کرنے کی دھمکی دی تھی اگر حکومت پرانی ادائیگیوں کی مد میں، 300 بلین پاکستانی روپے واپس نہیں کرتی۔

چینی کمپنیوں کا کہنا تھا کہ انہیں کوئلے کی قیمتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے درکار لیکویڈیٹی فراہم نہیں کی گئی۔

پاکستان اب چین سے سی پیک سے منسلک پاور پراجیکٹس پر قرض میں ریلیف مانگ رہا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے اہلکار نے کہا کہ "بیجنگ، جس نے 'ہر موسم کا دوست' ہونے کا دعویٰ کیا ہے ... اس کے بجائے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے [پاکستان] پر مسلسل دباؤ ڈالا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500