ماحول

سی پیک کے دس سال بعد، کوئلے کے چینی پلانٹس نے پاکستان کو صحت کے بحران میں ڈال دیا

از زرق خان

ماحولیاتی مارچ کے جھنڈے تلے سرگرم کارکن 17 جولائی کو کراچی میں کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

ماحولیاتی مارچ کے جھنڈے تلے سرگرم کارکن 17 جولائی کو کراچی میں کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- پاکستان اور چین کی حکومتوں نے گزشتہ ہفتے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اقتصادی تعاون کے 10 سال مکمل کر لیے ہیں۔

تاہم، تحقیقی مطالعات اور سرگرم کارکنوں کے مطابق، چین کے بنائے گئے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس، جو سی پیک کے تحت 10 سالوں کے دوران پاکستان میں بنائے گئے ہیں، ملک میں بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی پھیلا رہے ہیں اور مقامی آبادی کو صحت کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے پاکستانی جزو کے طور پر کوئلہ، سی پیک کے تحت پاکستان کے توانائی کے منصوبوں کا ایک بڑا حصہ بناتا ہے۔ سی پیک کی ویب سائٹ کے مطابق، چین کی طرف سے مالی اعانت فراہم کیے گئے 21 مکمل یا زیر تعمیر توانائی کے منصوبوں میں سے نو کوئلے سے چلائے جاتے ہیں۔

چین جو -- اب تک دنیا کا سب سے بڑا آلودگی پھیلانے والا اور کوئلے کا استعمال کنندہ ہے -- نے ستمبر 2021 میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ وہ آب و ہوا کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی عالمی کوششوں میں اپنے تعاون کے حصے کے طور پر، سمندر پار کوئلے کے منصوبوں کو ختم کرے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے 22 مارچ کو تھر میں ایک پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ [پاکستانی حکومت]

وزیر اعظم شہباز شریف نے 22 مارچ کو تھر میں ایک پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ [پاکستانی حکومت]

لیکن حقیقی طور پر، چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوئلے کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے۔

ماہرینِ اقتصادیات اور حکام کا کہنا ہے کہ درآمدی کوئلے پر چینی ساختہ پاور پلانٹ چلانے سے پاکستان کا معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا۔

جون میں ملک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 75 سالوں میں اپنا 23 واں بیل آؤٹ حاصل کیا ہے۔

دریں اثناء آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان چین کا 23 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ رقم اب تیزی سے، ایک غیر پائیدار بوجھ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

مارچ میں، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے صوبہ سندھ کے ایک غریب صحرائی قصبے تھر میں، چین کی مالی اعانت سے چلائے جانے والے، 1.65 گیگا واٹ کی صلاحیت رکھنے والے دو پاور پلانٹس، جو کوئلے سے چلتے ہیں، کا افتتاح کیا تھا۔

سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے خبر دی ہے کہ شریف نے، 22 مارچ کو پلانٹس کے افتتاح کے موقع پر بات کرتے ہوئے، تھر کول منصوبے پر تنقید کو مسترد کیا اور اسے "بجلی کے وسائل کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ ایک نعمت قرار دیا جس سے [فائدہ اٹھانے] کی ضرورت ہے"۔

سنگین ماحولیاتی خدشات

موسمیاتی تبدیلی کے سرگرم کارکنان اور تحقیقی مطالعات ملک میں موسمیاتی بحران کے ذمہ دار دیگر عوامل کے علاوہ، پاکستان میں چین کی طرف سے تعمیر کردہ کول پاور پلانٹس کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

کراچی میں سرگرم کارکنوں اور رہائشیوں کے ایک گروپ کی جانب سے شروع کی جانے والی پہل کاری، دی کلائمیٹ مارچ نے 16 جولائی (اتوار) کو حکومت سے تھر کول پراجیکٹ کو مرحلہ وار ختم کرنے، پورٹ قاسم پر چین سے چلنے والے کول پاور پلانٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی کے رہائشیوں کے لیے زہریلا ہے۔ انہوں نے صوبہ سندھ میں 1.3 گیگا واٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹ کی ترقی کے لیے، چین کے سرکاری ملکیتی ادارے پاور چائنا کے ساتھ مفاہمت کی یاد داشت کو منسوخ کر دیں۔

تھر سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن لیلا رام نے مارچ کے شرکاء کو بتایا کہ "ترقی اور خوشحالی کے بجائے، تھر کول پراجیکٹ نے، زبردستی نقل مکانی کروائی اور علاقے کی آب و ہوا اور روایتی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ تھر میں سی پیک سے متعلق کوئلے کے منصوبے مقامی باشندوں کو بھرتی نہیں کر رہے ہیں اور پلانٹس کے لیے غریب رہائشیوں سے زبردستی اور دھوکہ دہی سے زمینیں ہتھیا لی گئی ہیں۔

نومبر 2021 میں بوسٹن یونیورسٹی کے گلوبل ڈویلپمنٹ پالیسی سنٹر سے وابستہ محققین کے ایک گروپ کو علم ہوا تھا کہ پورٹ قاسم کا پاور پلانٹ "پاور پلانٹ سے قربت کی وجہ سے آس پاس کی آبادی کے لیے صحت کے لیے اہم خطرات پیدا کر رہا ہے اور مطالعہ کی جانے والی آبادی میں، سالانہ طور پر اضافی 49 اموات کا تخمینہ لگایا گیا ہے"۔

ماحولیاتی قانون الائنس ورلڈ وائیڈ (ای ایل اے ڈبلیو)،جو کہ اوریگون میں قائم ایک ماحولیاتی تھنک ٹینک ہے، نے اپنی اپریل کی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر کول سے چلنے والے بلاک II پاور پلانٹ میں یا اس کے آس پاس نو مقامات سے پینے کے پانی کے نمونے جمع کیے گئے ہیں جو "انسانوں کے پینے کے قابل نہیں ہے کیونکہ ان میں سیلینیم، آرسینک، مرکری، کرومیم اور سیسہ سمیت زہریلی دھاتوں کی بلند سطح موجود ہے"۔

اس سے پہلے کی جانے والی ایک تحقیق نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ تھر کے رہائشیوں کو خطے میں کوئلے سے متعلق منصوبوں سے صحت کے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500