معیشت

چین کے بی آر آئی منصوبوں میں شامل پاکستانی محنت کشوں کو کووڈ کی ظالمانہ پابندیوں کا سامنا

از زرک خان

اسلام آباد میں کارکن اینٹوں کی دیوار بچھاتے ہوئے۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چینی کمپنیوں میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کو کئی ماہ سے اپنے کام کی جگہوں سے نکلنے سے روک دیا گیا ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد میں کارکن اینٹوں کی دیوار بچھاتے ہوئے۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چینی کمپنیوں میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کو کئی ماہ سے اپنے کام کی جگہوں سے نکلنے سے روک دیا گیا ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستان میں چینی کمپنیاں اپنے پاکستانی مزدوروں پر کووڈ-19 کے خلاف ناقابلِ برداشت اقدامات کو نافذ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں زبردستی لاک ڈاؤن اور ان کے اہل خانہ سے علیحدگی شامل ہیں۔

جمعہ (14 اکتوبر) کو شائع ہونے والی آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) کی ایک تحقیق کے مطابق، پورٹ قاسم پر کوئلے سے چلنے والے چینی ساختہ بجلی گھر میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کو مارچ 2020 سے پلانٹ سے بغیر اجازت نہ نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس منصوبے پر کام کرنے والے ایک پاکستانی انجینئر نے اے بی سی کو بتایا، "ہمیں گھر جانے، اپنے عزیزوں سے ملنے، اپنے مذہبی یا ثقافتی تہوار منانے یا مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا، "ہم میں سے بہت سے لوگوں میں خودکشی کرنے کے خیالات بھی پیدا ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے"۔

اگست 2020 میں لی گئی ایک تصویر میں خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک چینی کمپنی کی ایک عمارت دکھائی گئی ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

اگست 2020 میں لی گئی ایک تصویر میں خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک چینی کمپنی کی ایک عمارت دکھائی گئی ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

28 ستمبر کو کراچی میں ایک حملے میں ایک چینی نژاد شخص کے ہلاک اور دیگر دو کے زخمی ہونے کے بعد پولیس اہلکار ڈینٹل کلینک کے باہر جمع ہیں۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

28 ستمبر کو کراچی میں ایک حملے میں ایک چینی نژاد شخص کے ہلاک اور دیگر دو کے زخمی ہونے کے بعد پولیس اہلکار ڈینٹل کلینک کے باہر جمع ہیں۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

"ہمیں اپنے ہی ملک میں آزادی نہیں ہے۔"

ایک اور اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کووڈ کی پابندیوں کے نام پر، ہمیں ایک وقت میں تین سے پانچ ماہ تک اپنے خاندانوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کمپنی اپنے چینی اہلکاروں سے مختلف طریقے سے پیش آتی ہے۔

انہوں نے کہا، "چینی اہلکاروں کے مقابلے میں، پاکستانی کارکنوں کو گھٹیا معیار کا کھانا دیا جاتا ہے اور انہیں طبی امداد تک رسائی نہیں دی جاتی"۔

چین کی ملکیتی پاور چائنا (PowerChina) کی ایک مقامی شاخ اس پلانٹ کو چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے جزو کے طور پر چلاتی ہے، جو چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

اے بی سی نے خبر دی کہ پاکستانی فوج کووڈ پالیسی کو نافذ کرنے میں مدد کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس پالیسی کو اس قدر سختی سے نافذ کیا گیا ہے کہ پاور چائنا بیمار اہلکاروں کے علاج کے لیے سائٹ پر رہنے کے لیے کسی مقامی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے کیونکہ پاکستانی ڈاکٹر اس پابندی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

پاکستان نے مارچ میں کووڈ-19 کی وجہ سے عائد تمام پابندیاں اٹھا لی تھیں۔

اے بی سی نے بتایا کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندھک تانبے اور سونے کی کان، ایک اور بی آر آئی منصوبے میں بھی اسی طرح کے کووڈ کے اقدامات کو میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ (ایم سی سی) کی جانب سے لاگو کیا گیا ہے۔

چینی کمپنی نے کم از کم 1,000 مزدوروں کو کئی ماہ سے اپنی کان پر اپنی جگہ چھوڑنے سے روک دیا ہے۔

فروری کے آخر میں، متاثرہ مزدوروں کے لواحقین، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے، نے پالیسی اور سڑکوں، سکولوں اور دکانوں کی بندش کے خلاف احتجاج کے لیے مارچ کیا تھا۔

احتجاج میں حصہ لینے والی ایک گھریلو خاتون زلیخا نے کہا، "چینی کمپنی نے مقامی رہائشیوں اور ملازمین کی زندگی اجیرن کر دی ہے"۔

اس کے شوہر، سیندھک کے ایک کان کن، کو پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ سے گھر جانے کی اجازت نہیں ملی۔

اے بی سی کی تحقیق کے مطابق، بہت سے لوگوں نے اگر باہر جانے کی اجازت بھی مانگی تو انہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے کا خوف ہے۔

سنہ 2021 میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 6.5 فیصد ہو گئی تھی۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق، پاکستان کے 31 فیصد سے زیادہ نوجوان اس وقت بیروزگار ہیں۔

اُجرتوں میں تضادات

پاکستانی محنت کشوں کے گروہ طویل عرصے سے پاکستان میں چینی کمپنیوں پر مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور بی آر آئی کا حصہ بننے والی جگہوں پر حفاظتی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

اس طرح کی زیادتیوں پر ملک بھر میں احتجاج کیا گیا ہے۔

ہالینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کی سنہ 2019 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ایک معاملے میں، آجروں نے M4 موٹروے کی تعمیر کے دوران تعمیراتی مزدوروں کے حقوق کا غلط استعمال کیا، یہ 309 کلومیٹر طویل موٹر وے چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے جزو کے طور پر بنائی گئی تھی۔

مزدوروں کے ساتھ فیلڈ انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے، مطالعہ میں کہا گیا، "اُجرت کی ادائیگیوں میں مسائل تھے، جن پر زیادہ تر لوگ متفق تھے کہ وہ کم تھیں؛ کچھ کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی یا تاخیر سے ادا کی گئیں"۔

اس میں مزید کہا گیا، "مزدوروں نے بتایا کہ انہیں کوئی حفاظتی سامان یا تربیت نہیں دی گئی ہے"۔

لاہور میں، اورنج لائن میٹرو ٹرین (او ایل ایم ٹی)، جو کہ بی آر آئی ہی کا حصہ ہے، اس الزامات پر غم و غصے کا نشانہ بنا کہ وہ چینی فرمیں جنہوں نے ریلوے بنائی تھی انہوں نے مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کی اور تعمیراتی مقامات پر حفاظتی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کیا، جس کے نتیجے میں کچھ مزدور جاں بحق ہوئے۔

سنہ 2020 میں پاکستانی سرکاری حکام کی جانب سے تبادلہ کردہ سرکاری دستاویزات کے مطابق، او ایل ایم ٹی پر کام کرنے والے اہلکاروں کی اُجرتوں کی فہرستوں سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ چینی عملے نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے کہیں زیادہ کمایا۔

چینی عملے کا صفحہ یوآن میں ماہانہ تنخواہوں کا انکشاف کرتا ہے۔ ان کی حد 1.2 ملین روپے (5,460 امریکی ڈالر) سے 3.6 ملین روپے (16,382 امریکی ڈالر) کے مساوی تک تھی۔

پاکستانی مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ 30,000 روپے (136 امریکی ڈالر) سے 625,000 روپے (2,844 امریکی ڈالر) تک تھی۔

بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر تشویش

اسلام آباد کے ساتھ اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے بیجنگ کے خودمختار سودے اور مقامی ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک نے پاکستان میں ناراضگی اور احتجاج کو جنم دیا ہے.

پاکستان میں چینی اثر و رسوخ کی تیزی سے ہوتی نشوونما، خصوصاً بلوچستان اور سندھ صوبوں میں -- چینی کمپنیوں کی جانب سے مقامی وسائل کے استعمال کے مقامی لوگوں پر پڑنے والے اثرات کی پرواہ کئے بغیر -- نے صوبے میں شدید بدامنی پر منتج ہوئی ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر اشتعال نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، اس تشویش کو ہوا دی ہے کہ مشترکہ گروپ خطے میں پُرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔

پولیس نے بتایا کہ 28 ستمبر کو، ایک بندوق بردار نے کراچی میں ایک حملے میں ایک چینی نژاد شخص کو ہلاک اور دیگر دو کو زخمی کر دیا تھا۔

اپریل کے آخر میں، بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس)کے ایک جزو، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے اندر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

فروری میں بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے نوشکی اور پنجگور اضلاع میں فوجی چوکیوں پر جڑواں حملے بھی کیے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500