جولائی میں براس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) اور سندھودیش ریوولوشنری آرمی (ایس آر اے) اب مل کر کام کر رہی ہیں "خطے میں موجودہ منظر نامے کی روشنی میں کیونکہ دونوں [بلوچوں اور سندھیوں] کو بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر تحفظات ہیں۔"
براس ایک مشترکہ تنظیم ہے جو چار کالعدم عسکری تنظیموں -- بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے)، اور بلوچ ریپبلکن گارڈز (بی آر جی) -- کو اکٹھا کرتی ہے۔
حالیہ برسوں میں بی ایل اے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور چینی اہلکاروں کو بارہا نشانہ بنا چکی ہے، بشمول کراچی میں بیجنگ کے قونصل خانے پر حملہ جس میں سنہ 2018 میں چار جانیں گئی تھیں۔
اس برس جون میں، بی ایل اے نے پاکستانی سیکیورٹی ایکسچینج پرایک حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جسے سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا تھا۔
چار حملہ آور ایکسچینج پہنچے، فائر کھولا اور گرنیڈ پھینکے، تین محافظ پہرے داروں اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
بی ایل اے نے کہا تھا کہ حملہ ناصرف "پاکستان کی معیشت" کو نشانہ بنانے کے لیے تھا بلکہ "بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے جواب میں چینی معاشی مفادات پر ایک حملہ" بھی تھا۔
عسکریت پسندی میں اضافے کا خدشہ
ایک پرانے دفاعی تجزیہ کار، اسلام آباد کےلفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے انتباہ کیا کہ عسکریت پسند گروہوں کا اتحاد "ایک انارکی کی صورتحال پیدا کرے گا اور خطے میں سیکیورٹی کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔"
انہوں نے کہا، "میرے خیال میں پاکستانی حکومت کو زمینی حقائق کا دوبارہ معائنہ کرنا چاہیئے۔ سندھ اور بلوچستان میں تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی اور امن و امان کی صورتحال تقاضہ کرتی ہیں کہ معاملات کو جبری طور پر نہیں، بلکہ جمہوری طریقے سے حل کیا جائے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "عوام اور ریاست کے درمیان خلاء کو پُر کرنے کی کوششیں کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ وقت ضائع کرنے کی بجائے، حکومت پر لازم ہے کہ خطے میں چینی اثرورسوخ پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر توجہ دے۔"
انہوں نے کہا، "اتحاد کے ساتھ، آئندہ دنوں میں یہاں عسکریت پسندی میں اضافے کا غالب امکان ہے، اور بدامنی کے نتیجے میں جاری غیرملکی سرمایہ کاری پر منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔"
انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد پر پاکستان چائنا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر، طلعت شبیر نے کہا کہ دونوں تنظیموں کی شراکت داری کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
انہوں نے کہا، "بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کے درمیان اتحاد ایسا ہے کہ جو خطے کے مجموعی امن و امان کو خطرے میں ڈال دے گا۔"
شبیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ بیرونی ممالک حکومت مخالف بلوچ عسکری تنظیموں کی کفالت بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
شبیر نے کہا، "میری رائے میں، پاکستان کے داخلی امور میں بیرونی مداخلت پر تو سوال ہی نہیں ہے۔ ہمارے مختلف تضادات کو ہمیشہ سے دشمن ممالک کی جانب سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "دو امن مخالف گروہوں کے درمیان اتحاد ایک نئے کھیل کو ظاہر کرتا ہے جس میں قوم پرستی کا کارڈ بہت اہم ہو گا۔"
شبیر نے کہا، "ریاست مخالف عناصر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے دہائیوں سے یہاں اپنے ذرائع استعمال کرتے رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہاں عدم تحفظ کا احساس دلانے کے لیے ایک منظم ایجنڈے کے تحت ایک فضاء تیار کی جا رہی ہے۔"
شبیر نے کہا، "ریاست مخالف عناصر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے دہائیوں سے یہاں اپنے ذرائع استعمال کرتے رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہاں عدم تحفظ کا احساس دلانے کے لیے ایک منظم ایجنڈے کے تحت ایک فضاء تیار کی جا رہی ہے۔"
چینی سرمایہ کاری پر تشویشیں
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر، ملک عبدالولی نے کہا، "گوادر ایک تاریخ اور بلوچ شناخت کے ساتھ منسلک ہے: لہٰذا بلوچ قوم کے لیے اس کی اہمیت محض معیشت سے بہت زیادہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "عسکری گروہوں کے درمیان نیا اتحاد حکومتِ پاکستان کے دونوں صوبوں میں چینی سرمایہ کاریوں کی اجازت دینے کا ردِعمل ہے۔"
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنماء، رحمت علی بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کے متعلق بلوچ عوام کی تشویشوں کا مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور مقامی باشندے ان سرمایہ کاریوں کو اپنی شناخت اور قومی مفاد کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "عوامی رضامندی کے بغیر بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری صوبے میں مجموعی صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "حکومتِ پاکستان کو چاہیئے کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی چینی سرمایہ کاری پر قوم پرست جماعتوں کی تشویشوں پر توجہ دے۔"
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابقہ نائب صدر، محمد ساجد نے اس بیان کی تائید کی۔
انہوں نے کہا، "میرا نہیں خیال کہ ہمارے لوگ صوبے میں کبھی بھی سرمایہ کاری کے خلاف نہیں رہے، مگر ان کے حقیقی تحفظات چینی سرمایہ کاری پر ہیں، جسے وہ یہاں دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "اگر وفاقی حکومت بلوچستان میں بغاوت کو ختم کرنا چاہتی ہے، تو اسے صوبے میں چینی سرمایہ کاری کے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِثانی کرنی چاہیئے۔"