کوئٹہ -- تجزیہ کاروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام نے کہا ہے کہ بلوچستان میں، چین مخالف تشدد میں ہونے والے حالیہ اضافے کا تعلق، ایران میں عسکریت پسند گروپوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے ہے۔
پاکستانی فوجیوں نے، صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے جاری چار روزہ حملوں کے ایک سلسلے کو ختم کر دیا۔ یہ بات فوج نے ہفتہ (5 جنوری) کو بتائی اور ہلاکتوں کی حتمی تعداد کے مطابق 20 عسکریت پسند اور نو فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے بدھ کو رات گئے، صوبہ کی نوشکی اور پنجگور ڈسٹرکٹس میں فوجی چوکیوں پر جڑواں حملوں کا آغاز کیا۔
فوج کا کہنا ہے کہ نوشکی میں ہونے والے حملے کو جمعرات کو کچل دیا گیا مگر پنجگور میں ہونے والا حملہ ہفتہ کے دن تک ہی ختم ہوا۔
پاکستان اور امریکہ دونوں نے ہی بی ایل اے کو ایک عسکریت پسند تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
لڑائی کے یہ دن ایسے وقت پر شروع ہوئے جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان، متنازعہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے، چین کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے کالعدم نسلی علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے کیچ ڈسٹرکٹ میں سیکورٹی کے عملے کے 10 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
نئے بننے والے عسکریت پسند گروہ، بلوچستان نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نے لاہور کے ایک مصروف بازار میں 20 جنوری کو ہونے والے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں تین شہری ہلاک اور 25 سے زیادہ دوسرے زخمی ہو گئے تھے۔
بلوچستان میں ہونے والے حملوں نے وزارتِ داخلہ کو، جمعرات کے دن ملک بھر میں الرٹ جاری کرنے پر مجبور کر دیا جس میں انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو انتہائی چوکس رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
علیحدگی پسندوں نے، وسیع جنوب مغربی صوبے میں برسوں سے شورش برپا کر رکھی ہے جسے اس غصے نے ہوا دی ہے کہ اس کے قدرتی وسائل کے وافر ذخائر اس کے شہریوں کو غربت سے نجات نہیں دلا رہے ہیں۔
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے کے تحت، چین کے دور مغربی علاقے سنکیانگ کو بلوچستان میں گوادر کی اسٹریٹجک بندرگاہ سے جوڑنے کے باعث، ایسے دعوؤں نے جنم لیا ہے کہ سرمایہ کاری کی وسیع آمد سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ایرانی پناہ گاہیں
حکام کا کہنا ہے کہ تہران، پاکستانی سرحد کے قریب اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر، آنکھیں بند کیے ہوئے ہے جس سے دہشت گردوں کو بلوچستان میں داخل ہونے اور حملے کرنے کی کھلی چھوٹ مل رہی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ جن عسکریت پسندوں نے بدھ کو پنجگور اور نوشکی میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا وہ ایرانی سرزمین استعمال کر سکتے تھے اور ایران سے سفر کر کے آئے تھے۔
جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران لانگو نے کہا کہ "عسکریت پسند وہاں سے آتے جاتے رہتے ہیں اور اس بار جو حملے ہوئے، آپ جانتے ہیں کہ ہماری ایران کے ساتھ بہت لمبی سرحد ہے۔"
حکام کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں، بلوچستان سے دہشت گردی کے ملزمان کی گرفتاریوں سے، خودکش حملوں اور پاکستان میں عدم استحکام کی سرگرمیوں میں ایران کا ملوث ہونا آشکار ہوا ہے۔
بلوچستان کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام نے 24 ستمبر کو اعلان کیا کہ انہوں نے، بلوچستان صوبہ کی تربت ڈسٹرکٹ میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشن کے دوران، دہشت گردی کے ایک گروہ کے تین ایسے مبینہ ملزمان کو گرفتار کیا ہے جن کے ایران سے تعلقات تھے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے قانون نافذ کرنے والے ایک اہلکار نے کہا کہ "یہ گرفتاریاں 20 اگست کو پاکستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں چینی اہلکاروں پر کیے جانے والے خودکش حملے کے ایک حصہ کے طور پر کی گئیں"۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ عسکریت پسند گروپوں نے صوبہ بلوچستان کے مکران کے علاقے سے ملحقہ میرجاوا اور دیگر ایرانی سرحدی علاقوں میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "مختلف بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے ایسے ارکان، جو ان علاقوں میں موجود پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے ہیں، بلوچستان میں حملوں کے بعد واپس ایران بھاگ جاتے ہیں "۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار نے، ستمبر میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "20 اگست کو چینی اہلکاروں پر گوادر میں ہونے والے خودکش حملے میں ملوث خودکش حملہ آور کو، ایران کے علاقے رامین سے منتقل کیا گیا تھا۔"
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی طرف سے تیار کردہ سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، بلوچ علیحدگی پسند گروپوں نے 2021 میں صوبے میں 71 دہشت گردانہ حملے کیے، جن میں 95 افراد ہلاک ہوئے۔
خیبرپختونخواہ، ایسا واحد پاکستانی صوبہ تھا جسے دہشت گردی کے زیادہ تر کاموں کا نشانہ بننا پڑا۔
سی پیک سے عسکریت پسندی میں اضافہ
جہاں ایران بلوچ باغیوں کو چھپنے اور دوبارہ منظم ہونے کے لیے جگہ دیتا ہے، وہاں چین وسائل سے مالا مال بلوچستان میں، اپنی دبنگ اقتصادی موجودگی سے انھیں بھڑکاتا ہے۔
قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں چینی اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ -- چینی کمپنیوں کی طرف سے، کسی فکر یا مقامی لوگوں پر پڑنے والے اثرات کی پرواہ کئے بغیر، مقامی وسائل کا استعمال -- صوبے میں شدید بدامنی کو جنم دے رہا ہے۔
بیجنگ نے گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کے کئی بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس سے چین کے اثر و رسوخ پر تشویش اور اس امر پر ناراضگی نے جنم لیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پاکستانی کارکنوں سے زیادہ تنخواہیں دیتا ہے۔
پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن، مجتبیٰ بلوچ نے کہا کہ "وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے چند گھنٹے قبل، 2 فروری کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے اڈوں پر حملے کا تعلق، بیجنگ سے [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر بلوچ آبادی کی شکایات سے تھا۔"
انہوں نے کہا کہ صوبائی عوام کی رضامندی کے بغیر بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری، صوبے کی سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے، بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے جس سے اس تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ مشترکہ گروپ خطے میں پرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔
بی آر اے ایس نے جولائی 2020 میں ایک بیان میں کہا کہ بلوچ راجی آجوئی سانگر (بی آر اے ایس) اور سندھودیش انقلابی فوج اب "خطے کے موجودہ منظر نامے کی روشنی میں مل کر کام کر رہے ہیں کیونکہ دونوں [بلوچ اور سندھیوں] کو بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر شدید تحفظات ہیں"۔
کراچی میں، عسکریت پسندوں نے نومبر 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا جس میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔
جون 2019 میں، کراچی میں ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے چار دہشت گردانہ حملوں میں تین سیکورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ایک چینی کنسورشیم پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 40 فیصد حصہ رکھتا ہے۔
گوادر میں ہونے والے مظاہرے، اپنے ذریعہ معاش اور روزمرہ زندگیوں پر چین کے اثر و رسوخ پا پاکستان کی تشویش کا ایک اور اشارہ ہیں۔