سلامتی

بلوچستان میں عسکریت پسندی میں اضافے کا الزام چین کی بلا روک ٹوک منافع خوری پر

از عبدالغنی کاکڑ

29 جون 2020 کو سوگواران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر مسلح افراد کے حملے میں جاں بحق ہونے والے نجی سیکیورٹی گارڈ کا جنازہ لے جاتے ہوئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ حملہ ناصرف پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا بلکہ 'بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردِعمل میں چین کی اقتصادی مفادات پر بھی حملہ تھا'۔

29 جون 2020 کو سوگواران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر مسلح افراد کے حملے میں جاں بحق ہونے والے نجی سیکیورٹی گارڈ کا جنازہ لے جاتے ہوئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ حملہ ناصرف پاکستان کی معیشت کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا بلکہ 'بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردِعمل میں چین کی اقتصادی مفادات پر بھی حملہ تھا'۔

کوئٹہ -- قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں چینی اثرورسوخ کی یکساں رفتار سے نمو -- جس میں چینی کمپنیاں مقامی افراد پر ہونے والے اثر کی پرواہ یا تشویش کے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں -- صوبے میں شدید بے چینی پیدا کر رہا ہے۔

اے ایف پی نے خبر دی کہ پاکستان بار بار سرمایہ کاریوں اور قرضوں کی لیے بیجنگ کا رخ کرتا رہا ہے جس پر مغربی ناقدین کا کہنا ہے کہوہ طویل مدت میں چین کے بے پناہ فائدے میں رہیں گی.

بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کا مرکز گوادر رہا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی بندرگاہ کی تیاری چینی کا ایک مرکزی منصوبہ ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مرکزی نائب صدر، ملک عبدالولی نے کہا، "ہماری رضامندی کے بغیر، ہماری سرزمین پر چینی سرمایہ کاری بلوچ مفاد کو تباہ کر رہی ہے۔"

سنہ 2019 میں بلوچ ریپبلکن آرمی کے ارکان کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ [فائل]

سنہ 2019 میں بلوچ ریپبلکن آرمی کے ارکان کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ [فائل]

24 نومبر 2018 کو کوئٹہ میں سوگواران اس روز شہر میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے متاثرین کے جنازے لے جاتے ہوئے۔ حکام نے کہا کہ ہینڈ گرنیڈوں اور خوکش جیکٹ سے مسلح افراد زبردستی قونصلیٹ میں گھس گئے اور چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

24 نومبر 2018 کو کوئٹہ میں سوگواران اس روز شہر میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے متاثرین کے جنازے لے جاتے ہوئے۔ حکام نے کہا کہ ہینڈ گرنیڈوں اور خوکش جیکٹ سے مسلح افراد زبردستی قونصلیٹ میں گھس گئے اور چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

انہوں نے کہا، "بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری پر ہماری تشویشوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ساحل پر اور صوبے کے وسائل پر مقامی افراد کی خودمختاری کو تسلیم کیے بغیر، لاقانونیت میں بہتری نہیں آئے گی۔"

ان کا کہنا تھا کہ چین بے دردی سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔

ولی نے کہا، "گوادر بلوچ تاریخ اور شاخت سے وابستہ ہے، اور اس کی اہمیت معاشی مفادات سے بہت زیادہ ہے۔"

نیشنل پارٹی سے منسلک بلوچستان کے سینیٹ میں ایک نمائندے، کبیر محمد شاہی نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں چینی مزدوروں کی کثرت سے موجودگی ان تشویشوں میں اضافہ کر رہی ہے کہ بلوچستان کا یہ ساحلی علاقہ اور خطۂ مکران میں مزید عسکریت پسندی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو ڈر ہے کہ گوادر میں چین کی بڑے پیمانے پر موجودگی خطے میں فوجی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرے گی اور موجودہ تناؤ میں اضافہ کرے گی۔

شاہی نے کہا، "بلوچستان میں چینی اثرورسوخ کی مخالف کرنے والے ان عسکریت پسندوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ کو بلوچ قوم کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور قومی محرومیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "گوادر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔۔۔ لہٰذا، میرے خیال میں وفاقی حکومت کے لیے وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان میں چینی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کاری کے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔"

صوبے میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک بڑے رہنماء، عبدالعلی نے کہا، "بلوچستان کے سیندک کے علاقے سے، چینی کمپنیوں نے کسی بھی مقامی، قومی یا بین الاقوامی نگرانی کے بغیرتانبے اور سونے کے ذخائر نکال لیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اور بین الاقوامی قوانین کے برعکس، "چینی کمپنیوں نے ضلع چاغی میں تعلیم، صحت، یا بنیادی ڈھانچے میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔"

علی نے کہا، "بلوچستان میں چینی منصوبوں پر، مقامی باشندوں کے فائدے کے لیے مقامی شراکت داریوں پر غور نہیں کیا گیا۔ ان ۔۔۔ استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے، سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں سماجی اور ترقیاتی اشاریوں میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی۔"

انہوں نے مزید کہا، "بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری اور پیسہ صوبے میں سیاسی استحکام اور ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کے متعلق مقامی آبادی کی تشویشوں پر غور کرنا چاہیئے۔"

سیکیورٹی میں اضافہ

عسکریت پسندوں نے ایسے جذبات کو دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔

دفاعی قوتوں نے سوموار (29 جون) کے روزپاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ایک حملےکو ناکام بنایا تھا جو چینی اثرورسوخ سے تعلق رکھتا تھا۔

چار حملہ آور ایکسچینج پہنچے، فائر کھولا اور ایک گرنیڈ پھینکا، جس سے تین سیکیورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار شہید ہو گئے جس کے بعد دفاعی قوتوں نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔

اے ایف پی کو ایک ای میل میں، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ حملہ ناصرف "پاکستانی معیشت" کو نشانہ بنانے کے لیے تھا بلکہ "بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے ردِ عمل میں چینی معاشی مفادات پر حملہ" بھی تھا۔

حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے بارہا بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور پاکستان میں چینی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے، بشمول سنہ 2018 میں کراچی میں بیجنگ کے قونصل خانے پر ایک حملہ جس میں چار جانیں گئی تھیں۔

اپنی طرف سے، پاکستانی فوج بلوچستان میں سیکیورٹی میں اضافہ کر رہی ہے۔

اسلام آباد کے مقامی ایک بڑے دفاعی تجزیہ کار اور انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں پاکستان چائینہ سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا، "چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو [بی آر آئی] بنیادی منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے عسکری توسیع معاشی تعاون میں ایک لازمی عنصر ہو سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان اور چین دونوں گوادر بندرگاہ کے حفاظتی انتظام کو مضبوط کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کر رہے ہیں،" انہوں نے مزید کہا، "پاکستان [بی آر آئی] اور دیگر منصوبوں میں اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہا ہے۔"

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گوادر کے مقامی ایک خفیہ اہلکار نے کہا، "دشمن ایجنسیاں بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان مخالف عسکری گروہوں کی کفالت کر رہی ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "بنیادی طور پر گوادر بندرگاہ اور متعلقہ منصوبوں کی نگرانی افواجِ پاکستان کر رہی ہیں، اور فوج کی کئی بٹالینوں اور نیم فوجی فورسز پر مشتمل ایک خصوصی حفاظتی ڈویژن اس معاملے پر مصروفِ عمل ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

زبردست تحریر، بہت جاندار تجزیہ ہے کاش پاکستانی میڈیا بھی اس طرح زمینی حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کرپاتا۔

جواب