گوادر -- گوادر کی بندرگاہ پر چینی فوج کے ارادوں کے متعلق بہت سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، جہاں پہرے کے بھیس میں بہت سی مشکوک عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل پر، گوادر، کا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (بی آر آئی) کا ایک بڑا جزو بننے کی توقع ہے، جو پاکستان کے لیے پرکشش تجارتی اور ترقیاتی منصوبوں کے امکانات کے دروازے کھول رہا ہے۔
بندرگاہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو کھولا ہے جس سےدو ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہےاور سرحد کے دونوں جانب مزدوروں کے روزگار میں بہتری آئی ہے.
مگر بی آر آئی، خصوصاً گوادر کا منصوبہ، بلاتنازعہ نہیں ہے۔
چینی منصوبے سے پاکستان کو طویل مدت میں کم فائدہ اور زیادہ معاشی نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے ، ایک اعلیٰ امریکی سفارتکار نے گزشتہ برس تنبیہ کی تھی، اور پاکستانی ماہرینِ اقتصادیات اور ماحولیات نےچینی سرمایہ کاریوں سے سنگین نقصانات کے متعلق تشویشوں کا اظہار کیا ہے۔.
مبصرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت بندرگاہ کی تعمیر کو پاکستان میں ایک بحری چھاؤنی کے قیام کے لیے ایک پردے کے طور پر استعمال کر رہی ہو سکتی ہے۔
تجارتی بندرگاہ یا فوجی چھاؤنی؟
پاکستان نے پہلے سنہ 2011 میں چین سے گوادر میں ایک فوجی چھاؤنی تعمیر کرنے کو کہا تھا۔
سنہ 2011-2008 میں پاکستان کے وزیرِ دفاع، چودھری احمد مختار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا، "ہم نے اپنے چینی بھائیوں سے درخواست کی ہے کہ براہِ کرم وہ گوادر میں ایک بحری چھاؤنی تعمیر کریں۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستانی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ درخواست مئی 2011 میں دورۂ چین کے دوران کی تھی۔
بات چیت سے واقفیت رکھنے والے ایک سینیئر پاکستانی اہلکار نے کہا، "بحری چھاؤنی ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں امید ہے کہ وہ مستقبل میں چینی جہازوں کی باقاعدگی کے ساتھ آمد کو ممکن بنائے گی اور اس جگہ کو [بحرِ ہند کے علاقے] میں اپنے جہازوں کے دستے کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے بھی استعمال کرے گی۔"
لیکن اس اقدام کو خطے میں دیگر ممالک کی جانب سے ناگواری سے دیکھا گیا، اور دو سال پہلے تک اس کے بارے میں مزید کوئی خبر نہیں آئی۔
بیجنگ کے مقامی عسکری تجزیہ کار ژو چین منگ نے جنوری 2018 میں ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا، "چین کو اپنے جنگی جہازوں کے لیے گوادر میں ایک اور چھاؤنی قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گوادر اب ایک سویلین بندرگاہ ہے۔"
ان کا کہنا تھا، "باربرداری والے جہازوں کو ویئر ہاؤسز اور کنٹینروں کے لیے بہت ساری جگہ والی ایک بڑی بندرگاہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر جنگی جہازوں کو دیکھ بھال اور باربرداری کی معاون خدمات کے ایک مکمل سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے۔"
اخبار کا کہنا تھا کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک اور قریبی ذریعے نے تصدیق کی کہ چینی بحریہ گوادر کے قریب ایک ایسی چھاؤنی تشکیل دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے جیسی پہلے ہی جیبوتی میں کام کر رہی ہے۔
ژو کا کہنا تھا کہ بیجنگ بحرِ ہند میں بہتر رسائی چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا، "خلیجِ عدن میں گشت کرنے والے چینی بحری بیڑے اور بحرِ ہند میں چینی تیل کے ٹینکروں کی رہنمائی کرنے والے جنگی جہازوں جو دیکھ بھال اور مرمت نیز انتظامی رسدوں کے لیے ایک بحری چھاؤنی کی ضرورت تھی کیونکہ انہیں پاکستان میں جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے وہ وہاں سے زیادہ نہیں ملتی۔"
تاہم، چینی حکام نے ان امکانات کے متعلق لب سیئے رکھے ہیں۔
پاکستانی حکام بندرگاہ کے ممکنہ عسکری فعل کا ذکر کیے بغیر، بندرگاہ کی چین کے ساتھ تعاون کے ایک لازمی جزو کے طور پر تشہیر کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی-چینی اقتصادی تعاون میں ایک رہنماء، لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے 4 جولائی کو "گوادر میں تمام منصوبوں کو شروع کرنے اور پایۂ تکمیل تک پہنچانے" کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔
زیرِ تعمیر گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے، ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 230 ملین ڈالر (38.5 بلین روپے) مالیت کا منصوبہ "گوادر شہر/گوادر بندرگاہ کی ترقی کا نقیب بنے گا۔"
'غیر معمولی سخت پہرہ'
2 جون کو فوربز نے خبر دی اگرچہ گوادر میں بحری چھاؤنی تعمیر کرنے کے چینی منصوبے کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی ہے، سیارے سے لی گئی حالیہ تصاویر بظاہر یہ دکھاتی ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں کئی نئی عمارات تعمیر کی گئی ہیں -- جن میں سے ایک پر "غیر معمولی سخت پہرہ" ہے۔
رپورٹ میں ایک ایسی عمارت کی نشاندہی کی گئی ہے جو اکثریتی ریاستی ملکیت کمپنی، چائنا کمیونیکیشنز کنسٹرکشن کو، کے زیرِ استعمال ہے جو چین کے سول انجینئرنگ منصوبوں میں بہت زیادہ ملوث ہے۔
فوربز میں دفاعی تجزیہ کار ایچ آئی سیوٹن نے لکھا کہ پہرے کی سطح "انتہائی وسیع" ہے اور "گاڑی کھڑی نہ کر سکنے والے برم، حفاظتی باڑوں اور ایک بلند و بالا دیوار" پر مشتمل ہے۔ پہرے داروں کی چوکیاں اور محافظوں کے اونچے ٹاور باڑ اور اندرونی دیوار کے درمیانی علاقے کا احاطہ کرتے ہیں،" جو "رائفلوں سے مسلح پہرے داروں" کی موجودگی بتاتے ہیں۔
گزشتہ برس دو چھوٹی سائٹس تعمیر کی گئی ہیں جن میں نیلی چھتوں والی عمارتیں ایک قطار میں ہیں، جن کے متعلق چند مبصرین کہتے ہیں کہ وہ چینی بحری دستوں کی فوج کے لیے بیرکیں ہو سکتی ہیں۔
سیوٹن نے لکھا، "آیا چینی بحری چھاؤنی دیکھے جانے والی ایک حقیقیت ہے۔ مگر یہ نئی سائٹس، بشمول انتہائی سخت پہرے والی عمارت، نشاندہی کر سکتی ہیں کہ بندرگاہ کی تعمیر کا اگلا مرحلہ بہت قریب ہے۔ اور اگر چینی بحریہ بندرگاہ کو استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے، تو اس سے بحرِ ہند میں ان کی صلاحیتوں کو تقویت ملے گی۔"
بڑھتے ہوئے چین مخالف جذبات
بیجنگ کے پاس خطے میں تحفظ کے لیے فکرمند ہونے کی وجہ موجود ہے کیونکہ گوادر بندرگاہ کے منصوبوں پر عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے اور مقامی باشندوں میں چین مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔
مقامی قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بلاروک ٹوک چینی اثرورسوخ -- ساتھ ہی مقامی باشندوں کا خیال رکھے یا ان پر ہونے والے اثر کی فکر کیے بغیرچینی کمپنیوں کی جانب سے مقامی وسائل کا استحصال -- صوبے میں شدید بے چینی پیدا کر رہا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مرکزی نائب صدر، ملک عبدالولی نے کہا، "ہماری مرضی کے بغیر، ہماری سرزمین پر بڑھتی ہوئی چینی سرمایہ کاری بلوچ مفادات کو تباہ کر رہی ہے۔"
نیشنل پارٹی کے ساتھ منسلک بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے ایک سینیٹر، کبیر محمد شاہی نے کہا کہ بلوچ عوام کو خوف ہے کہ گوادر میں چین کی بڑے پیمانے پر موجودگی خطے میں فوجی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرے گی اور موجودہ چپقلش میں اضافہ کرے گی۔
ان کا کہنا تھا، "بلوچستان میں چینی اثرورسوخ کی مخالفت کرنے والے عسکریت پسندوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ کو بلوچ قوم کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور قومی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔"
صوبے میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک بڑے رہنماء، عبدل علی نے کہا، "بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری اور پیسہ سیاسی استحکام اور صوبے کی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کے متعلق مقامی آبادی کی تشویشوں پر غور کرے۔"
چینی موجودگی عسکریت پسندی کو فروغ دے رہی ہے
عسکریت پسندوں نے ایسی تشویشوں کو دہشت گردی کے افعال کا جواز بنا کر استعمال کیا ہے۔
اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ حملے کا ہدف صرف "پاکستانی معیشت" کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ "بلوچستان میں چین کے استحصالی منصوبوں کے جواب میں چینی اقتصادی مفادات پر ایک حملہ" بھی تھا۔
بی ایل اے نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں کئی بار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور چینی مزدوروں کو نشانہ بنایا ہے، بشمول کراچی میں بیجنگ کے قونصل خانے پر حملہجو نومبر 2018 میں چار جانیں لے گیا تھا۔
مئی 2019 میں، بی ایل اے نے گوادر میں ایک پُرتعیش ہوٹل پر حملہ کیا تھا۔
گزشتہ جولائی میں، امریکی وزارتِ خارجہ نے بی ایل اے کو ایک عالمی دہشت گرد تنظیمقرار دیا تھا، حکومتِ پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔
اگر یہ مکالہ محض حقائق شائع کر رہا ہوتا تو یہ مزید مخلصانہ ہوتا۔ لیکن اس قدر خوف، سوداگری اور رائے کے ساتھ، اور مصنف کے نام کے بغیر، چھٹی نسل کی اس جنگ کے دوران اس مکالہ کا دھمکی آمیز مقصد چھپانا مشکل ہے۔ اس ویب سائیٹ کے مالکان کو اپنے ارادے چھپانے کے لیے زیادہ بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید یہ اپنی آئندہ بنائی جانے والی ویب سائیٹ میں بہتر کام کر سکیں۔ بدقسمتی سے ان کی یہ سائیٹ درحقیقت عیاں ہو گئی ہے۔
جوابتبصرے 1