معیشت

بلوچستان میں نئی معدنی پالیسی میں بے قاعدہ چینی معاہدے نمایاں

عبدالغنی کاکڑ

23 مئی، 2018 کو لی گئی اس تصویر میں ایک چینی ڈائریکٹر کان کنی کے ایک مقام پر ساتھ کام کرنے والے ایک پاکستانی کارکن سے بات کر رہے ہیں۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

23 مئی، 2018 کو لی گئی اس تصویر میں ایک چینی ڈائریکٹر کان کنی کے ایک مقام پر ساتھ کام کرنے والے ایک پاکستانی کارکن سے بات کر رہے ہیں۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

کوئٹہ – حکام اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتِ بلوچستان کی نئی معدنیاتی پالیسی اور غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ کان کنی کے معاہدوں کی تجدید سے اس کا انکارچینی سرمایہ کاری کے لیےایک بڑے دھچکے کا باعث بن سکتا ہے۔

حکومت نے صوبے میں سونے، تانبے اور دیگر معدنیات کی کان کنی کے لیے ایک نئی اور سخت تر معدنی پالیسی وضع کی ہے۔

نومبر سے نافذالعمل اس نئی پالیسی کے تحت، صوبے کے شعبہٴ معدنیات میں مستقبل کے کسی بھی نئے معاہدے میں حکومتِ بلوچستان ایک بڑی حصہ دار ہو گی۔

اس کے لیے مختص کم از کم آمدنی کی شرحِ فیصد کا انکشاف نہیں کیا گیا، لیکن قبل ازاں صوبائی حکومت کو معدنیات سے پیدا ہونے والی آمدنی کی نہایت کم شرحِ فیصد ہی ملتی تھی۔

16 دسمبر کو چینی اور پاکستانی حکام گوادر میں ایک نوتشکیل شدہ ہسپتال کے افتتاح میں شریک ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

16 دسمبر کو چینی اور پاکستانی حکام گوادر میں ایک نوتشکیل شدہ ہسپتال کے افتتاح میں شریک ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال نے 16 دسمبر کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "بلوچستان میں اپنائی گئی نئی معدنیاتی پالیسی وہ آئین سازی ہے جس کا صوبے میں سب سے زیادہ انتظار تھا۔ آگے چل کر بلوچستان کے مفادات سے منافی ہونے پر چینی کمپنیوں سمیت کسی غیر ملکی کمپنی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔"

انہوں نے کہا، "شعبہٴ معدنیات اور تیل اور گیس کی تسخیر میں غیر ملکی کمپنیوں سے ماضی میں کیے گئے تمام معاہدے بلوچستان کے وسیع تر مفاد کے خلاف ثابت ہوئے۔"

کمال نے کہا، "ہم چاہتے ہیں کہ صوبہ اپنے قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو، ہمارا آج کا فیصلہ ہماری آئندہ نسلوں پر اثرانداز ہو گا؛ لہٰذا ہم کسی بھی معاہدے میں صوبے کے مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔"

انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا، "ماضی میں چینی اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے، بلوچستان کو آمدنی کی نہایت معمولی شرحِ فیصد ملتی تھی۔ اس نئی معدنیاتی پالیسی کے ذریعے، بلوچستان مستقبل میں کان کنی کے ہر معاہدے میں ایک بڑا حصہ دار ہو گا۔"

نیا معاہدہ

چینی کمپنیاں بلوچستان کے مختلف شعبوں میں کام کرتی رہی ہیں۔

ایک منصوبہ، سینڈک کاپر-گولڈ مائن، 2001 سے اب تک میٹالّرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ (MMC) کو ٹھیکہ پر دیا گیا ہے۔

جب MMC نے ٹھیکے کی تجدید کے لیے حکومت سے رابطہ کیا تو حکام نے مطالبہ کیا کہ نئی پالیسی کے جزُ کے طور پر حکومت کو بڑا حصہ دار بنایا جائے۔

انہوں نے کہا، "پاکستان سینڈک پراجیکٹ سے اربوں روپے آمدنی وصول کر رہا ہے، لیکن بلوچستان کو کبھی آمدنی کا مکمل حصہ نہیں ادا کیا گیا۔ ہم یہ جان کر پرجوش ہیں کہ اب حکومتِ بلوچستان صوبے کے حقوق میں براہِ راست دلچسپی لے رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہماری سرزمین میں ساحلی [معیشت]، کان کنی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کے بے حد امکانات ہیں اور یہ وسائل دنیا بھر میں کہیں اور خال ہی پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں تاحال صوبے کے وسائل پر عوام کی خود مختاری کا اعتراف نہیں کیا گیا۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ متعدد چینی اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں نے کان کنی، توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے حکومت سے براہِ راست رابطہ کیا۔ صوبائی حکومت کو کسی بھی آنے والے معاہدے میں صوبے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا۔"

بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے ایک ترجمان شیر محمّد بگٹی نے کہا، "بلوچستان میں چینی اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاریبڑے پیمانے پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوںکا باعث بن رہی ہے اور لاقانونیت پیدا کر رہی ہے۔"

بگٹی نے کہا، "مقامی قیادت اور مقامی رہائشیوں کی رضامندی کے بغیر چینی سرمایہ کاری بلوچستان کے لیے کسی مفاد کا باعث نہیں ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایسے علاقے جہاں چینی کمپنیاں بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، مقامیوں کے لیے نو گو ایریاز بنا دیے گئے ہیں۔ چینی کمپنیوں کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ حالیہ طور پر اسلام آباد مقامی آبادی کے لیے فوائد و نقصانات کو جانچے بغیر بلوچستان پر اثرانداز ہونے والے سرمایہ کاری کے تمام معاہدوں سے نمٹ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے دوغلے پن نے بلوچستان میں چینی سرمایہ کاروں کو خصوصی استثنا دے رکھا ہے۔"

وسائل کی ’کھوج‘

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سنیئر وائس پریزیڈنٹ مالک عبدالولی نے کہا، "حالیہ حکومت کے دعویٰ کے مطابق، نافذ ہو جانے پر ۔۔۔ بلوچستان کی نئی معدنیاتی پالیسی کا مستقبل میں شعبہٴ معدنیات یا دیگر شعبوں میں کسی بھی چینی سرمایہ کاری پر ایک نہایت منفی اثر ہو گا، کیوں کہ نئی پالیسی میں سرمایہ کاروں کے لیے نہایت سخت شرائط و ضوابط ہیں۔"

انہوں نے کہا، "بلوچستان سے متعلق ریاستی پالیسیاں ہمیشہ امتیازی رہی ہیں، اور ماضی میں بلوچستان کی حقیقی قیادت کو غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے دور رکھا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والی تمام غیر ملکی سرمایہ کاری کی جغرافیائی سیاسی جہتیں ہیں؛ لہٰذا، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا، "اگر حکام [ہردو وفاقی اور صوبائی] مقامی باشندوں کے تحفظات کو دور کرنا چاہتے ہیں، تو چینی حکومت کے ساتھ معاہدوں کو بلوچستان کے مفادات کے ساتھ مشروط ہونا چاہیئے۔"

ولی نے کہا، "چینی کمپنیاں ہمارے وسائل کی جستجو میں سرگرداں ہیں، اور متعلقہ حکومتی عہدیاران معاہدوں پر رشوت اور دیگر احسانات کی وجہ سے اس خردبرد پر خاموش ہیں۔"

انہوں نے کہا، "وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی کے لیے مختلف دعوے کررہی ہے، لیکن درحقیقت، یہ صوبہ ہمیشہ اپنے حقوق سے محروم رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500