دہشتگردی

سیکورٹی عملے نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر بڑا حملہ ناکام بنا دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

پولیس کمانڈوز 29 جون کو کراچی میں مسلح افراد کے حملے کے بعد، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے قریب گشت کر رہے ہیں۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

پولیس کمانڈوز 29 جون کو کراچی میں مسلح افراد کے حملے کے بعد، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے قریب گشت کر رہے ہیں۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

کراچی -- پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروں نے پیر (29 جون) کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ایک بڑے حملے کو ناکام بنا دیا اور بلوچ عسکریت پسندوں کو عمارت میں داخل ہو کر قتلِ عام کرنے سے روک دیا۔

ہلاک کیے جانے سے پہلے، عسکریت پسند ایکسچینج پہنچے اور انہوں نے فائرنگ شروع کی اور دستی بم پھینکے جس سے تین سیکورٹی اہلکار اور ایک پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔

مقامی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

کراچی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ "پولیس کو دہشت گردوں سے، جدید خودکار ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد ملا ہے"۔

قانون نافذ کرنے والا عملہ 29 جون کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ایک حملے کے بعد کراچی میں تلاشیاں لے رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

قانون نافذ کرنے والا عملہ 29 جون کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ایک حملے کے بعد کراچی میں تلاشیاں لے رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

قانون نافذ کرنے والے اہلکار 29 جون کو کراچی میں اس کار کا معائینہ کر رہے ہیں جسے دہشت گردوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملے کے لیے استعمال کیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

قانون نافذ کرنے والے اہلکار 29 جون کو کراچی میں اس کار کا معائینہ کر رہے ہیں جسے دہشت گردوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملے کے لیے استعمال کیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

ایک بروکریج فرم کے ملازم مراد کپاڈیا نے کہا کہ پولیس اور پرائیوٹ سیکورٹی گارڈوں نے دہشت گردوں کو عمارت میں داخل ہونے سے روکا۔

کپاڈیا جو کہ حملے کے وقت عمارت کی دوسری منزل پر موجود تھے، کہا کہ "قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے فوری ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ عسکریت پسند حملے کرنے کی اپنی صلاحیت کھو چکے ہیں"۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بعد میں اے ایف پی کو بھیجے جانے والے ایک پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ جنگجوؤں کے ایلیٹ یونٹ نے یہ حملہ کیا تھا۔

عسکریت پسندوں نے حالیہ سالوں میں ملک بھر -- جس میں کراچی بھی شامل ہے، میں ہائی پروفائل کے حملوں کا ایک سلسلہ انجام دیا ہے۔

بی ایل اے ان بہت سے شورش پسند گروہوں میں سے ایک ہے جو بنیادی طور پر صوبہ بلوچستان میں لڑ رہے ہیں۔

اس گروہ نے حالیہ سالوں میں، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور پاکستان میں چین کے کارکنوں کو متعدد بار نشانہ بنایا ہے جس میں 2018 میں کراچی میں بیجنگ کے سفارت خانے پر دن دیہاڑے انتہائی ڈھٹائی سے کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

گزشتہ سال مئی میں، بی ایل اے نے گوادر میں ایک پرتعیش ہوٹل پر حملہ کیا جہاں بندرگاہ کی تعمیر، چین کی طرف سے سرمایہ کردہ کئی بلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے قومی منصوبے کا، اہم ترین منصوبہ ہے۔

گزشتہ سال، امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نےبی ایل اے کو عالمی دہشت گرد گروہ قرار دیا تھااور امریکہ میں موجود کسی بھی شخص کی طرف سے عسکریت پسندوں کی مدد کو جرم قرار دیا تھا اور اس کے امریکہ میں موجود تمام مبینہ اثاثوں کو منجمند کر دیا تھا۔

پرتشدد تاریخ

29 جون کے حملے کے بعد، پاکستان کے حکام نے ایسے بھی کسی گروہ کے خلاف جوابی حملہ کرنے کا عہد کیا جو ماردھاڑ کا ذمہ دار پایا گیا اور وعدہ کیا کہ ان کے نیٹ ورکس کو توڑ دیا جائے گا اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔

وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ نے بعد میں پوسٹ کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ "تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور بہت جلد ہی ہم ان کے منصوبہ سازوں تک پہنچ جائیں گے"۔

اپوزیشن کی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرادری نے ٹوئٹ کیا کہ "#KarachiStockExcahnge پر بزدلانہ حملے کو سندھ پولیس کے بہادرانہ اور بروقت قدم نے ناکام بنا دیا۔ تمام پاکستانی سندھ پولیس کے مشکور ہیں نہ صرف بہت سی جانیں بچانے پر بلکہ پاکستان کی معیشت کے اعصابی مرکز کا کامیاب دفاع کرنے پر"۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج میں کام حسبِ معمول چلتا رہا۔

سندھ رینجرز کے سربراہ میجر جنرل عمر احمد بخاری نے کہا کہ "یہ دہشت گردانہ حملہ دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش تھا کہ پاکستان محفوظ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی معاشی سرگرمی میں تنزلی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے"۔

کراچی کسی زمانے میں جرائم اور تشدد کا گڑھ ہوتا تھا اور سیاست دانوں سے تعلق رکھنے والے بھاری مسلح گروہ، اکثر فائرنگ کر کے مخالفین کو ہلاک کرتے اور رہائشی علاقوں پر حملے کرتے رہتے تھے۔

حالیہ سالوں میں، سیکورٹی کی ایجنسیوں کی طرف سے،سیاسی جماعتوں اور اسلام پسند دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے بعد، صورتِ حال کافی حد تک مستحکم ہو گئی ہے۔

عسکریت پسند ابھی بھی زیادہ تر دیہی علاقوں میں اور گاہے بگاہے شہری مراکز میں، اکا دکا حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

[کراچی سے ضیاء الرحمان نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500