ماحول

پاکستانی ماہی گیروں کا گہرے سمندر کے چینی ٹرالروں کی آمد پر احتجاج

از ضیاء الرحمان

کراچی کے ماہی گیر 2 ستمبر کو سندھ اور بلوچستان میں چین کے گہرے سمندر کے ٹرالروں کی آمد پر سراپا احتجاج ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کے ماہی گیر 2 ستمبر کو سندھ اور بلوچستان میں چین کے گہرے سمندر کے ٹرالروں کی آمد پر سراپا احتجاج ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- پاکستانی ماہی گیر سندھ اور بلوچستان میں چین کے گہرے سمندر کے ٹرالروں کی آمد کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ان کے روزگار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور مقامی سمندری ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔

پاکستان فشرفوک فورم (پی ایف ایف) اور پاکستان بونافائیڈ فشرمین فورم نے 2 ستمبر کو اگست کے آخری ہفتے میں چین کے گہرے سمندر کے 20 ٹرالروں کی آمد کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کراچی میں ایک مارچ کا اہتمام کیا۔

حکومت کے محکمۂ تعاون کی جانب سے ایک حالیہ چٹھی کے مطابق، حکومتِ سندھ نے ایک چینی کمپنی، فوجیان ہینگلی فشری کو کے ساتھ ٹرالروں کو گہرے سمندر میں ماہی گیری کی کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے کا معاہدہ کیا ہے۔

چینی ٹرالروں نے ابھی ماہی گیری کا آغاز کرنا ہے۔

گوادر کا ایک ماہی گیر 2 فروری کو اپنا ماہی گیری کا جال مرمت کرتے ہوئے۔ بلوچستان کے ساحلی شہر، گوادر میں ماہی گیری سے وابستہ مزدوروں نے چینی جہازوں کی آمد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ [ضیاء الرحمان]

گوادر کا ایک ماہی گیر 2 فروری کو اپنا ماہی گیری کا جال مرمت کرتے ہوئے۔ بلوچستان کے ساحلی شہر، گوادر میں ماہی گیری سے وابستہ مزدوروں نے چینی جہازوں کی آمد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں 5 ستمبر کو ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے ایک کشتی تیار کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں 5 ستمبر کو ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے ایک کشتی تیار کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

ماہی گیری سے وابستہ سینکڑوں مزدوروں نے ریلی میں حصہ لیا، ان تشویشوں کا اظہار کرتے ہوئے کہ چینی ٹرالر دونوں صوبوں کے مخصوص معاشی علاقے میں مچھلی پکڑنے اور مچھلی کے پہلے سے ہی رو بہ زوال ذخیرے کو خالی کر دینے کے قابل ہوں گے۔

احتجاجی مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت چین کے گہرے سمندر کے ماہی گیر ٹرالروں کو لائسنس دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے۔

پی ایف ایف کے چیئرمین محمد علی شاہ، جنہوں نے وفاقی حکومت کے تعاون سے اقوامِ متحدہ (یو این) کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کی جانب سے انجام دیئے گئے مچھلی کے ذخیرے کے تعین کا حوالہ دیا، نے کہا کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں مچھلی کے ذخائربے قابو ماہی گیری سے کم ہو رہے ہیں۔

شاہ نے کہا، "چینی ٹرالروں کی جانب سے ماہی گیری پاکستان کے سمندری وسائل کو مزید کم کر دے گی۔"

پاکستان کے سمندروں کی فروخت

وہ ماہی گیر جو گوادر، گہرے پانی کی بندرگاہ کی تیاری کے منصوبے کا مقام جو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (بی آر آئی) کا مقام ہےسے تعلق رکھتے ہیں، چینی جہازوں کی آمد کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

گوادر میں ماہی گیری سے وابستہ مزدوروں کے ایک رہنماء، خدائیداد واجو نے کہا، "سمندر میں ماہی گیری سندھ اور بلوچستان کے ساحلی شہروں میں رہنے والے 2.5 ملین سے زائد افراد کے لیے ایک روزگار ہے، اور چین کے گہرے سمندر کے نئے ٹرالر ہمیں ہمارے روزگار سے محروم کر دیں گے۔"

واجو نے کہا کہ ٹرالروں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دینا بلوچستان کے سمندروں کو چین کے ہاتھوں فروخت کرنے کے مترادف ہے۔

اپنے ملک کے پانیوں سے باہر مچھلی پکڑنے والے چینی جہاز ایک طویل عرصے سے غیر قانونی طرزِ عمل میں ملوث ہونے کے لیے موردِ الزام ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔

ییلے یونیورسٹی کی جانب سے شائع کردہ آن لائن جریدے، YaleEnvironment360 کی جانب سے اگست کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس 700 سے زائد چینی جہاز اقوامِ متحدہ کی ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے نظر آئے جو شمالی کوریا کے پانیوں میں مچھلی پکڑنے کی ممانعت کرتی ہیں۔

یہ پابندیاں، جن کا اطلاق سنہ 2017 میں ملک کے نیوکلیائی ٹیسٹوں کے ردِ عمل میں ہوا تھا، ان کا مقصد شمالی کوریا کو اپنے پانیوں میں مچھلی پکڑنے کے حقوق فروخت کر کے قیمتی زرِمبادلہ کمانے کی اجازت نہ دے کر سزا دینا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی جہاز دو جہازوں کے درمیان پھیلے ہوئے بڑے جال استعمال کرتے ہیں، ایک ایسی مشق جس کی ماحولیاتی محافظ مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ ناموافق طور پر اور مسرفانہ طریقے سے مچھلی کو ہلاک کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا، "حالیہ برسوں میں ملک کے قریب سمندروں کو خالی کرنے کے بعد، چینی ماہی گیر بیڑے دیگر ممالک کے پانیوں کا استحصال کرنے کے لیے اپنی حد سے آگے تک جاتے رہے ہیں۔"

بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر تحفظات

چینی حکومت نے پاکستان کے ساتھ کئی بلین ڈالر مالیت کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے معاہدے کیے ہیں، جس سے ملک میں چینی اثرورسوخ پر تشویشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں چینی اثرورسوخ میں متواتر اضافہ -- جس میں چینی کمپنیاں مقامی باشندوں پر اثر کی کسی پرواہ یا تشویش کے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں-- صوبے میں سنگین بدامنی کو مہمیز دے رہا ہے۔

بلوچستان کے ضلع چاغی کے سیندک کے علاقے میں، چینی کمپنیوں نے بغیر کسی مقامی، ملکی یا بین الاقوامی نگرانی کے تانبے اور سونے کے ذخائر نکال لیے ہیں۔

مقامی باشندوں اور سیاسی رہنماؤں نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے برعکس، چینی کمپنیوں نے ضلع چاغی میں تعلیم، صحت یا بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہیں کی۔

صوبہ سندھ میں بی آر آئی سے منسلک منصوبوں پر صحرائے تھر کے علاقےمیں مکینوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے جب مطالعات نے یہ ظاہر کیا کہ اس پہل کاری کے تحت کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں سے جنوبی ایشیاء میں بہت فضائی آلودگی ہو گی اور مقامی آبادی کو صحت کے سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔

دریں اثناء، بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر اشتعال نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور کیا ہے، جس سے ان تشویشوں میں اضافہ ہو رہا ہے کہ متحد گروپ خطے میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کر دیں گے۔

براس نے جولائی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) اور سندھو دیش ریوولوشنری آرمی اب مل کر کام کر رہی ہیں "خطے میں موجودہ منظرنامے کی روشنی میں کیونکہ دونوں [بلوچوں اور سندھیوں] کو بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر شدید تحفظات ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500