اسلام آباد – خارجہ پالیسی کے پاکستانی تجزیہ کار اور معاشیات دان اسلام آباد کو بی آر آئی سی ایس نامی معاشی بلاک، جس نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ وہ یکم جنوری سے توسیع کا آغاز کرے گا، کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش سے باز رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اس کے بجائے وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے ، اور سلامتی، تجارت اور ٹیکنالوجی اشتراک جاری رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
گزشتہ جمعرات (24 اگست) کو جوہانسبرگ میں ایک اجلاس کے اختتام پر بی آر آئی سی ایس – برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ – نے اعلان کیا کہ انہوں نے ارجنٹینا، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت (یو اے ای) کو اس بلاک میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔
20 سے زائد ممالک نے باضابطہ طور پر شمولیت کے لیے درخواست دی اور نام نہاد عالمی جنوب سے تقریباً اسی تعداد میں غیر مغربی ممالک نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
ایک عہدیدار نے گزشتہ بدھ دی ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بی آر آئی سی ایس میں شمولیت کے لیے کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی۔
عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ اس گروہ کے مستقبل سے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچ جانا قبل از وقت ہو گا کیوںکہ بی آر آئی سی ایس خود بھی ابھی توسیع کے منصوبے سے متعلق اتفاقِ رائے پر پہنچنا ہے۔
عہدیدار نے مزید کہا، ”اب تک، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی جانب سے کوئی بات چیت نہیں ہے۔“
اعلان کے بعد، مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارت نے سرسری طور پر تعریف شدہ اس گروہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے اپنی مستعدی کو نشر کیا۔
تاہم ارجنٹینا کی رکنیت مشکوک ہے کیوںکہ اکتوبر میں آنے والے انتخابات کے لیے حزبِ اختلاف سے ملک کے دو بڑے صدارتی امّیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ اجازت نہیں دیں گے کہ ملک اس بلاک میں شمولیت اختیار کرے۔
سعودی عرب کا ردِ٘ عمل غیر ذمہ دارانہ تھا، جس میں وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ریاض دعوت سے متعلق ”تفصیلات کا منتظر“ ہے اور وہ ”مناسب فیصلہ کرے گا۔“
تقریباً 50 عالمی رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی۔ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگی جرائم کے الزامات پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ کی وجہ سے ذاتی طور پر شرکت نہیں کی۔
جغرافیائی سیاسی تناؤ کی منتقلی
جغرافیائی سیاسی تناؤ کی منتقلی اسلام آباد کو بی آر آئی سی ایس میں ملوث ہونے سے باز رہنے کا مشورہ دینے والے پاکستانی تجزیہ کاروں نے اسکے مغرب مخالف ایجنڈا کا حوالہ دیا ہے۔
سرمایہ کاروں کی مشاورت کرنے والی کراچی اساسی ایک بروکریج فرم میں ایک محقق، کاشف حسین نے کہا، ”بی آر آئی سی ایس کی رکنیت سے باز رہنے سے پاکستان۔۔۔ امریکہ اور روس-چین اتحاد کے مابین حالیہ جغرافیائی سیاسی تناؤ کو منتقل کر سکے گا۔“
انہوں نے کہا، ”پاکستان کی مشکل معاشی صورتِ حال اور یورپی یونیئن ]ای یو[ اور امریکہ، ہر دو کو نمایاں درآمدات کے پیشِ نظرمغربی قیادت کے اتحاد کے ساتھ چلنا اسلام آباد کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔“
حسین نے کہا کہ اس بلاک کی سیاسیات کی حرکیات پاکستان کو تجارت، سلامتی اور ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں امریکہ کے ساتھ بہتر تعاون میں معاونت کا ایک موقع فراہم کرتی ہیں۔
بینک دولتِ پاکستان کے مطابق، مالی سال 2022-23 میں یورپی یونیئن کے 27 ممالک کو پاکستان کی برآمدات 8.1 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئیں، جس میں کلیدی منازل جرمنی، ہالینڈ، سپین، اٹلی اور بیلجیئم تھیں۔
اسی عرصہ کے دوران امریکہ کو پاکستان کی برآمدات 5.9 بلین ڈالر رہیں، جبکہ چین کو کل برآمدات 2 بلین ڈالر تھیں۔
پاکستان کا ایک دوست
طویل المعیاد تعلقات میں چند تلخیوں کے باوجود امریکہ نے پاکستان کا ایک حقیقی اتحادی ثابت ہوا ہے۔
رائیٹرز نے جون میں خبر دی کہ اس وقت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر اس سطح پر پہنچ گئے تھے کہ وہ بمشکل ایک ماہ کی برآمدات کی مالیت ہی کو برداشت کر سکتا تھا۔
جب پاکستان دیوالیہ ہونے کو تھا تو مغرب – نہ کہ چین – نے اسے بچایا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 30 جون کو پاکستان کو 3 بلین ڈالر کے قرض کے پروگرام سے بیل آؤٹ دیتے ہوئے، اس جنوبی ایشیائی ملک کو بیتابی سے درکار مہلت پیش کی۔
ڈان اخبار نے سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے 3 جولائی کو خبر دی کہ امریکہ نے پردے کے پیچھے پاکستان کو آئی ایم ایف سے یہ بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے میں مدد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستانی وزارتِ مالیات کے ساتھ کام کرنے والے ایک اسلام آباد اساسی معاشیات دان نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کہا، ”واشنگٹن کے مرہونِ منت، اسلام آباد کو کم از کم نو ماہ کے لیے آئی ایم ایف سے عارضی طور پر نہایت اہم مہلت مل سکی ہے۔“
انہوں نے کہا، ”لیکن چینی قرضوں سے جان چھڑائے بغیر پاکستان اپنی معاشی تکلیف کو حل نہیں کر سکتا۔“
پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جو چینی قرض دہندگان کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کو معاشی مشکلات بھی درپیش ہیں، اور وہ چین سے اپنے قرضوں میں دیوالیہ ہونے کے بڑھتے ہوئے خطرے سے دوچار ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ ادارے کی جانب سے فروری میں ایک تجزیہمیں انکشاف ہوا کہ پاکستان کے غیرملکی قرضے کا 30 فیصد چین کو واجب الادا ہے، جس میں ریاستی ملکیت تجارتی بینکوں کا قرض بھی شامل ہے۔
مشاہدین پاکستان کے ابتر ہوتے قرض اور مالیاتی مسائل کے لیے گزشتہ دہائی کے دوران بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ایک پاکستانی جزُ ، چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کے جزُ کے طورپر دستخط ہونے والے قرضہ جات اور معاہدوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔