معیشت

چین کے ساتھ نئے معاہدوں سے اقتصادی اثرات پر بحث چھڑ گئی

از زرک خان

لاہور کے مکین 2 اگست کو پیٹرل و ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

لاہور کے مکین 2 اگست کو پیٹرل و ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- چین کے نائب وزیرِ اعظم کے اسلام آباد کے حالیہ دورے کے دوران دستخط کردہ نئے معاہدوں نے پاکستان کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال کے درمیان ملک میں چین کی سرمایہ کاری کے اثرات کے بارے میں بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے.

چینی نائب وزیرِ اعظم ہی لائفنگ، صدر شی جن پنگ کے خصوصی ایلچی کے طور پر فرائض انجام دیتے ہوئے، اتوار (30 جولائی) کے روز اسلام آباد پہنچے تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے دونوں ممالک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے 10 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کریں جو بیجنگ کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا پاکستانی جزو ہے۔.

سرکاری ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) نے پیر کو خبر دی کہ دورے کے دوران، انہوں نے کہا کہ "ایک آہنی بھائی اور تزویراتی شریکِ کار" کے طور پر چین پاکستان کو جاری اقتصادی اور مالی مدد فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ہی نے مفاہمت کی چھ نئی یادداشتوں اور دیگر معاہدوں پر دستخط کیے، جنہیں "سی پیک کا دوسرا مرحلہ" کہا جاتا ہے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف (دائیں) اور چین کے نائب وزیرِ اعظم ہی لائفنگ (بائیں) 31 جولائی کو اسلام آباد میں سی پیک کی 10ویں سالگرہ مناتے ہوئے۔ [پاکستان مسلم لیگ-نواز/ٹویٹر]

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف (دائیں) اور چین کے نائب وزیرِ اعظم ہی لائفنگ (بائیں) 31 جولائی کو اسلام آباد میں سی پیک کی 10ویں سالگرہ مناتے ہوئے۔ [پاکستان مسلم لیگ-نواز/ٹویٹر]

نئے معاہدوں میں ایکسپورٹ ایکسچینج میکانزم کا قیام، پاکستان سے چین کو خشک مرچوں کی برآمد کے لیے ایک پودوں کو بیماریوں سے بچانے کی ضرورت کے طریقۂ کار، قراقرم ہائی وے مرحلہ دوم کی دوبارہ ترتیب کے لیے فزیبلٹی سٹڈی اور صنعتی مزدوروں کے تبادلے کے پروگرام شامل ہیں۔

نئے معاہدوں پر تنقید

چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں سڑکوں سے لے کر پاور پلانٹس تک کے منصوبوں کے لیے 25.4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

تاہم، اقتصادی تجزیہ کار ان خدشات کا حوالہ دیتے ہیں کہ گزشتہ دہائی کے دوران سی پیک کے تحت چین کے ساتھ قرضوں اور مالیاتی معاہدوں نے پاکستان کے قرضوں میں اضافہ کیا ہے اور ملک کو اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کا شکار بنا دیا ہے۔

تنقید بیجنگ کے ساتھ کیے گئے نئے معاہدوں تک وسیع ہے کیونکہ شریف کی حکومت پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔

حکومت نے منگل کے روز بین الاقوامی منڈی میں اتار چڑھاؤ کے مطابق ایندھن کی قیمت میں 20 پاکستانی روپے (7 امریکی سینٹ) فی لیٹر تک اضافے کا اعلان کیا۔ اس پر ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔

ستمبر میں شائع ہونے والی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان اپنے غیر ملکی قرضوں کا 30 فیصد چین کا مقروض ہے، جس میں سرکاری کمرشل بینک بھی شامل ہیں۔

رائٹرز نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ جون تک، پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اس سطح پر گر چکے تھے جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو برقرار رکھ سکتے تھے۔

پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے دھانے پر پہنچنے کے بعد، -- چین نے نہیں -- مغرب نے اسے بچایا۔

آئی ایم ایف نے 30 جون کو پاکستان کو 3 بلین ڈالر کے قرضے کے پروگرام کے ساتھ بیل آؤٹ کیا، جس سے جنوبی ایشیائی ملک کے لیے ایک اشد ضروری مہلت پیش کی گئی۔

انگریزی کے روزنامہ ڈان نے 3 جولائی کو سفارتی ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے میں امریکہ نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا۔

غیر مساوی شراکت دار

اے پی پی نے سوموار کے روز خبر دی کہ ہی کے دورے کے دوران، شریف نے مین لائن-1(ایم ایل-1) اور کراچی سرکلر ریلوے، جو کہ پاکستان میں سی پیک سے منسلک ریل کے دو بڑے منصوبے ہیں، کی کامیاب تکمیل کے بارے میں امید ظاہر کی ہے۔

پاکستان نے ایم ایل-1 ریل روڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے چین سے قرضہ لینے والی رقم میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔ قرض 6.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 9.85 بلین ڈالر ہو رہا ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے فروری کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان چین سے نئی مالی امداد لینے کے لیے اس سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جتنا کہ چین اسے فراہم کر سکتا ہے"۔

اس نے کہا، "حتیٰ کہ جب معیشت بھاری قرضوں کے بوجھ اور دیگر شدید چیلنجوں میں ڈوب رہی ہے، پاکستانی حکام نے ایم ایل-1 ریل روڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے چین سے مدد مانگ لی ہے"۔

سرمایہ کاروں کو مشورہ دینے والی کراچی کی بروکریج فرم کے ایک محقق کاشف حسین نے کہا کہ پاکستان، چین کے ساتھ معاہدے کرنے والے دیگر ممالک کی طرح، چین کی "قرض کے جال کی سفارت کاری" کا شکار ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا، "چینی قرضوں سے نمٹے بغیر، ملک کو اپنی مالی مشکلات کا حل نہیں مل سکتا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Kia kera phir hamara hukmaran Sara London k hy un ko kia prya Pakistan ki mhamra mulk jab tarqi kare ga jab koi Pakistani hukmaran ayy gain in ka kuch nahi Pakistan ma pura khandan London ma hy Allah na kera mushkil waqt ma ya Sara bhag gay gy Allah hama in zalimeo sa bachay

جواب

اب یاد آیا جماعت والوں کو ۔ جب عمران خان کے دور میں تیل مہنگا ہوا تو زبانوں کو تالے لگے ہوئے تھے

جواب

Ab in ki ma margai

جواب