توانائی

چین کے جوہری پاور پلانٹ کے معاہدے نے پاکستان کے قرضوں کے بحران سے متعلق خدشات کو دوبارہ بھڑکا دیا

زرق خان

20 جون کو اسلام آباد میں پاکستانی اور چینی حکومت کے نمائندگان چشمہ، پنجاب میں ایک جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے 4.8 بلین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔ [پی ٹی وی]

20 جون کو اسلام آباد میں پاکستانی اور چینی حکومت کے نمائندگان چشمہ، پنجاب میں ایک جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے 4.8 بلین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔ [پی ٹی وی]

اسلام آباد – پاکستان میں ایک اور جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے چین کے ساتھ ایک حالیہ معاہدہ نے ایک مرتبہ پھر بیجنگ کو واجب الادا اسلام آباد کے بھاری قرضہ جات پر خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

طرفین نے 20 جون کو چشمہ، ضلع میانوالی، صوبہ پنجاب میں 1,200 میگاواٹ جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے 4.8 بلین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ پاکستان میں ساتواں چینی ساختہ جوہری پاور پلانٹ ہو گا۔

اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے نمائندگان کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ریاست کے زیرِ انتظام نیوز چینل پی ٹی وی پر کہا، ”اس منصوبے پر فوری طور پر کام شروع ہو گا۔“

انہوں نے کہا، ”4.8 بلین ڈالر کی حد تک اس منصوبے میں چینی سرمایہ کاری ایک واضح اور صریح پیغام دیتی ہے کہ پاکستان ایک ایسا مقام ہے جہاں چینی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنے اعتماد اور یقین کا مظاہرہ کرتے ہیں۔“

مئی میں ضلع دیر، خیبر پختونخوا میں ایک مذہبی جماعت کے ارکان ملک میں ریکارڈ افراطِ زر اور مالیاتی عدم توازن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان]

مئی میں ضلع دیر، خیبر پختونخوا میں ایک مذہبی جماعت کے ارکان ملک میں ریکارڈ افراطِ زر اور مالیاتی عدم توازن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان]

تاہم، شریف حکومت کو ریکارڈ افراطِ زر، مالیاتی عدم توازن اور بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کی مالیت کو پورا کرنے والے ریزروز کا سامنہ ہے— اور زیادہ مسائل چین سے قرضہ جات اور ان کے ساتھ مالیاتی معاہدوں سے پیدا ہو رہے ہیں۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے 10 جون کو مالی سال 2023-2024 کا بجٹ جاری کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا، ”COVID وبا اور قدرتی آفات کے اثرات جیسی حالیہ صورتِ حال میں، پاکستان دوطرفہ لین داروں سے قرض کی ترتیبِ نو کی بات کر سکتا ہے۔“

امریکی ادارۂ امن کی اپریل کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین تقریباً 27 بلین ڈالر کے ساتھ پاکستان کا مرکزی لین دار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دیگر لین داروں میں عالمی بینک (18 بلین ڈالر)، ایشیائی ترقیاتی بینک (15 بلین ڈالر)، 25 مرکزی لین دار ممالک کا ایک گروہ، دی پیرس کلب (8.5 بلین ڈالر)، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) (7.6 بلین ڈالر) شامل ہیں۔

ایک نامعلوم پاکستانی اہلکار نے 12 جون کو نیکّی ایشیا کو بتایا، اسلام آباد بیجنگ سے توقع کرتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف تعاون نہ بھی کرے تو وہ قرضوں کی ترتیبِ نو کرے اور نادہندگی سے بچائے۔

تاہم، انہوں نے اتفاق کیا، ”فی الحال ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ چین پاکستان کی جانب سے قرض کی ترتیبِ نو کی درخواست سے اتفاق کرے۔“

ماضی میں چین نے قرض کی کسی بھی قسم کی ترتیبِ نو کو خارج کیا۔

چین کے قرضوں کا چنگل

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ایک پاکستانی جزُ، چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) نے اس تنقید کو بھڑکایا ہے کہ اس سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ پڑے گا اور اس سے چین کو ”قرضوں کے چنگل کی سفارت کاری“ کو تقویت دینے میں مدد ملے گی۔

زیادہ تر قرضوں پر مرتکز رہنے والے ایک مالیاتی تجزیہ کار محمّد مبشر نے کہا، ”نقدی کے فقدان کا شکار پاکستان پہلے ہی ادائگیوں کے توازن کے بحران سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور اس کے باوجود یہ نتائج کا احساس کیے بغیر بیجنگ کے ساتھ نئے معاہدے کر رہا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”پاکستان بری طرح سے چین کا مقروض ہو چکا ہے، جو معاشی اور سیاسی خودمختاری کھو دینے کا باعث بن سکتا ہے۔“

انہوں نے روسی خام تیل کی خریداری کے لیے چینی کرنسی کے استعمال کے پاکستان کے حالیہ اقدام پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس سے ملک عالمی طور پر تنہا ہو جائے گا۔

پاکستانی وزارتِ مالیات کے ساتھ کام کرنے والے ایک اسلام آباد اساسی معاشیات دان نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کہا، ”سی پی ای سی سے منسلک تمام منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے بیجنگ کی جانب سے دی گئی لاگت اور فراہمیٔ مالیات کی شرائط نہایت مہنگی اور پوری طرح سے چین کے حق میں ہیں۔“

انہوں نے کہا بیجنگ صرف زیادہ سے زیادہ منافع کو یقینی بنانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو روپیہ دیتا ہے۔

انہوں نے ایک حالیہ مثال کے طور پر پاکستان میں سی پی ای سی سے منسلک ایک بڑے ریل منصوبے، مین لائن 1 کی جانب اشارہ کیا، جس میں پاکستان نے چین سے قرض لی جانے والی رقم کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔

حکام کے مطابق، پاکستان نے چینی مذاکرات کاروں کی جانب سے سابقہ لاگت کی رقم کو ”غیر حقیقی“ قرار دیے جانے کے بعد اس منصوبے کی لاگت کو 6.8 بلین ڈالر سے بڑھا کر 9.85 بلین ڈالر کرنے پر اتفاق کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500