کاروبار

چین کی عالمی ترقیاتی مہم میں بڑی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں

از پاکستان فارورڈ

ایکواڈور کی سرکاری ملکیتی الیکٹرک کمپنی سی ای ایل ای سی کے جنرل منیجر، گونزالو یوکیلاس (دائیں)، ایکواڈور کے دیگر حکام کے ساتھ، 20 نومبر 2018 کو ایکواڈور کے علاقے ناپو میں ایک نیوز کانفرنس کرنے سے پہلے، کوکا کوڈو سنکلیئر ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کا دورہ کر رہے ہیں۔ [کرسٹینا ویگا/اے ایف پی]

ایکواڈور کی سرکاری ملکیتی الیکٹرک کمپنی سی ای ایل ای سی کے جنرل منیجر، گونزالو یوکیلاس (دائیں)، ایکواڈور کے دیگر حکام کے ساتھ، 20 نومبر 2018 کو ایکواڈور کے علاقے ناپو میں ایک نیوز کانفرنس کرنے سے پہلے، کوکا کوڈو سنکلیئر ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ کا دورہ کر رہے ہیں۔ [کرسٹینا ویگا/اے ایف پی]

بنیادی ڈھانچے کے درجنوں منصوبوں کے ساتھ جو کہ تقریباً 150 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی)، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، دنیا کے سب سے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

لیکن چینی رہنما شی جن پنگ کی طرف سے بی آر آئی کا آغاز کرنے کے تقریباً ایک دہائی کے بعد، نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس منصوبے کی بیان بازی اور اس کے حقیقی طریقوں کے درمیان تفاوت تیزی سے واضح ہوتی جا رہی ہے ۔

اس کے علاوہ، ایسی حکومتیں اور آبادیاں جو کہ چینی سرمایے سے چلنے والے بنیادی ڈھانچے پر انحصار کرتی رہی ہیں، خود ہی ان منصوبوں میں ساختی اور انجینئرنگ کے بڑے نقائص کو محسوس کرنے لگی ہیں۔

ساؤتھ - ساؤتھ ریسرچ انیشیٹو (ایس ایس آر آئی) جو کہ کولمبو اور سری لنکا میں بنیاد رکھتا ہے، میں 26 جنوری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ میزبان ممالک میں "امن، تعاون، ترقی اور باہمی فائدے" کو فروغ دینے کے بجائے، بی آر آئی چین کی "قرض کے جال کی ڈپلومیسی" اور پوری دنیا میں فوجی موجودگی کو بڑھانے کے لیے ایک پردے کے طور پر کام کرتا ہے۔

یکم نومبر 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک چینی انجینئر کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے مضافاتی علاقے چتر کلاس میں نیلم - جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پاور ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [سجاد قیوم/اے ایف پی]

یکم نومبر 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک چینی انجینئر کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے مضافاتی علاقے چتر کلاس میں نیلم - جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پاور ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [سجاد قیوم/اے ایف پی]

ایس ایس آر آئی نے زیمبیا، انگولا، لاؤس، سری لنکا اور پاکستان کے ساتھ چین کے معاہدوں کو دیکھا ہے۔

مجموعی طور پر، اس نے بی آر آئی سے منسلک کئی اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے: عوامی قرضوں میں تیزی سے اضافہ اور معاشی بحران؛ شفافیت کی کمی اور بدعنوانی؛ سماجی، سیاسی، قانونی اور سیکورٹی کے بارے میں بدامنی؛ اور ماحولیاتی مسائل۔

رپورٹ کے مطابق، زیمبیا میں، حکومت چینی سرمایہ کاروں کی ان ضرر رساں حرکات پر آنکھیں بند کر رہی ہے جو صنعتی شعبے کو تباہ کر رہی ہیں۔ انگولا میں، املاک کی خرید و فروخت کے شعبے میں چین کی سرمایہ کاری سے مقامی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے اور لاؤس کا چین پر قرض اسے بیجنگ کے اثر و رسوخ کے لیے حساس بنا رہا ہے۔

سری لنکا، خصوصی طور پر ایک بڑے سیاسی اور اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے جس کی ایک وجہ چینی قرضوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی خرابی ہے۔

ایس ایس آر آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "چونکہ بی آر آئی میں سرمایہ کاری کا ایک اہم حصہ چینی عوامی اداروں کی طرف سے آتا ہے اس لیے، سری لنکا کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور خودمختاری کے خاتمے پر تشویش موجود ہے۔ سری لنکا میں بی آر آئی کے منصوبوں میں شفافیت اور بدعنوانی کا فقدان ہے۔ اس کے کچھ ماحولیاتی اثرات بھی ہیں۔"

'خوف حقیقت بن گئے'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریں اثنا، پاکستان میں، آبادی کے "خوف حقیقت بن چکے ہیں"۔

بحیرہ عرب میں گوادر کے ساحل پر ماہی گیری کے بڑے بڑے چینی ٹرالروں کی وجہ سے بہت سے پاکستانی ماہی گیر اپنی گزر اوقات کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔

ایس ایس آر آئی نے کہا کہ "لہذا یہ واضح ہے کہ چین کے بی آر آئی منصوبے نے پاکستان میں سماجی بدامنی کو جنم دیا ہے اور اس سے معاشی عدم استحکام بھی ہوا ہے۔"

مظاہرین نے 27 دسمبر کو پاکستان کے گلگت بلتستان (جی بی) کے علاقے میں روزانہ مظاہرے کرنے شروع کر دیے تاکہ ان کے ذریعہ معاش اور روزمرہ کی زندگیوں پر چینی اثر و رسوخ پر تحفظات کا اظہار کیا جا سکے -- جن میں زمینوں پر قبضے اور دیگر مسائل جیسے بجلی اور گندم کی قلت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے بغیر ٹیکس عائد کرنا شامل ہیں۔

درجہ حرارت کے صفر سے نیچے چلے جانے کے باوجود، یہ احتجاج ہفتوں سے جاری ہے۔

جی بی میں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے، کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرین اس میں شامل ہو گئے۔

جی بی، چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتا ہے اور یہ بی آر آئی کے ایک پاکستانی جزو، چین - پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا دروازہ ہے۔

سرگرم کارکنوں نے بلوچستان اور صوبہ سندھ میں اسی طرح کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جی بی میں چینی سرمایہ کاری سے صرف بیجنگ کو فائدہ ہوتا ہے اور اس سے چینیوں کے خلاف مسلح مزاحمت جنم لے سکتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق، پاکستانی حکام 25 دسمبر سے اب تک، بیجنگ کے کہنے پر، گوادر میں ایک ماہ سے جاری احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جو کہ بلوچستان میں بحرہند کی وہ بندرگاہ ہے جسے کبھی سی پیک کا "شاہی جوہر" منصوبہ سمجھا جاتا تھا۔

ہنزہ، جی بی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر محمد شفیق ہنزئی نے جنوری میں کہا کہ "چین کے لوگ ماحول، مقامی ثقافت یا مذہب کی پرواہ کیے بغیر ترقیاتی منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔"

پاکستان اقتصادی سروے برائے 2022-2021 کے مطابق، ملک کو چین کا 87 بلین ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے۔

ایس ایس آر آئی نے خبر دی ہے کہ پاکستان حیران کن حد تک بلند شرح سود پر چینی قرضوں کی ادائیگی کے نیچے بھی دبا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، 2022 -2021 میں، پاکستان نے چین کو 4.5 بلین ڈالر کے قرض پر 150 ملین ڈالر سود ادا کیا۔

جب پاکستان نے قرض کی تنظیمِ نو کرنے کے لیے کہا تو چین نے ایک اور قرض کی پیشکش کر دی۔ ایس ایس آر آئی نے کہا کہ اس کے نتیجے میں، "پاکستان ... فی الحال نہ ختم ہونے والے قرضوں کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔"

بوسیدہ ہوتا ہوا بنیادی ڈھانچہ

پاکستان کے علاقے جموں و کشمیر میں نیلم - جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ، چین کے تعمیر کردہ ایسے منصوبوں کی ایک اور مثال پیش کرتا ہے جو درست ثابت نہیں ہوئے ۔

وال اسٹریٹ جرنل نے 20 جنوری کو خبر دی کہ پاکستانی حکام نے گزشتہ سال پلانٹ کو اس وقت بند کر دیا تھا جب انہیں ایک ایسی سرنگ میں دراڑ کا پتہ لگا تھا جو ٹربائن چلانے کے لیے ایک پہاڑ سے پانی لاتی تھی۔

اس منصوبے کی تعمیر 2008 میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک چینی کنسورشیم کو اس سے ایک سال پہلے ٹھیکہ حاصل ہوا۔ بہت دفعہ تاخیر کے بعد، پہلا جنریٹر اپریل 2018 میں شروع ہوا اور پورا منصوبہ اگست 2018 میں مکمل ہوا تھا۔

پاکستان کی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین توصیف فاروقی نے نومبر میں قانون سازوں کو بتایا کہ یہ سرنگ 969 میگاواٹ کے پلانٹ کے فعال ہونے کے صرف چار سال بعد ہی منہدم ہو سکتی ہے۔

نیپرا کے مطابق، جولائی سے، پلانٹ کی بندش سے پاکستان کو پہلے ہی تقریباً 44 ملین ڈالر ماہانہ، بجلی کی اضافی لاگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکی محکمہ توانائی اور عالمی بینک کے مطابق، اگر اچھی طرح سے تعمیر اور دیکھ بھال کی جائے تو ہائیڈرو پاور پلانٹس کم از کم 100 سال تک چل سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں، اسی طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

سرکاری انجینئرز کے مطابق، ایکواڈور میں چین کی طرف سے تعمیر کیے گئے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ میں ہزاروں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق، 2.7 بلین ڈالر کا کوکا کوڈو سنکلیئر ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ، ملک میں بنیادی ڈھانچے کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ تھا اور یہ بیجنگ کے لیے اتنا اہم تھا کہ شی نے 2016 میں اس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کیا تھا۔

اب، کنکریٹ کے ڈھانچے میں دراڑیں اور دریائے کوکا کی پہاڑی ڈھلوانوں کے کٹاؤ سے ڈیم کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جس سے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایکواڈور میں بجلی کا سب سے بڑا منبع ٹوٹ سکتا ہے۔

ایکواڈور کے علاقے کوئٹو میں یونیورسٹی آف سان فرانسسکو کے ایک انجینئر، فیبریسیو یپیز، جنہوں نے اس منصوبے کے مسائل کو قریب سے دیکھا ہے، نے کہا کہ "ہم سب کچھ کھو سکتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ایسا کل ہو گا یا چھ ماہ بعد میں۔"

اخبار نے خبر دی ہے کہ ایکواڈور کا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ دنیا بھر میں چینی فنڈ سے چلنے والے ایسے بہت سے منصوبوں میں سے ایک ہے جو تعمیراتی خامیوں سے دوچار ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کم معیار کی تعمیر سے بنیادی ڈھانچے کے کلیدی منصوبوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ میزبان ممالک کو اضافی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قرضوں کے اوپر قرض

یوگنڈا میں، ملک کی بجلی پیدا کرنے والی کمپنی نے دریائے نیل پر چینی ساختہ 183 میگا واٹ کے ہائیڈرو پاور پلانٹ، اسمبا ہائیڈرو پاور پلانٹ میں 500 سے زائد تعمیراتی نقائص کی نشاندہی کی ہے۔

اس لے نتیجہ میں، پلانٹ کو 2019 میں کام کا آغاز کرنے کے بعد سے، بار بار خرابی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یوگنڈا الیکٹرسٹی جنریشن کمپنی لمیٹڈ (یو ای جی سی ایل) کے مطابق، چائنا انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کارپوریشن ڈیم کو پانی میں موجود گھاس اور دیگر ملبے سے بچانے کے لیے فلوٹنگ بوم بنانے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے ٹربائنوں میں کچرا پھنس گیا اور بجلی بند ہونا شروع ہو گئی۔

یو ای جی سی ایل نے کہا کہ پلانٹ کے پاور ہاؤس کی چھت میں بھی سوراخ ہیں۔

یہ پلانٹ جس پر 567.7 ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی، کے لیے زیادہ تر مالی اعانت 480 ملین ڈالر کے قرضے کے ذریعے حاصل کی گئی جو ایکسپورٹ - امپورٹ بینک آف چائنہ نے دیا تھا۔

دریائے نیل کے مزید نیچے، ایک اور چینی تعمیر کردہ ہائیڈرو پاور پلانٹ، 600 میگا واٹ کا کروما ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، شیڈول سے تین سال پیچھے ہے۔

یوگنڈا کے حکام اس تاخیر کا ذمہ دار دیواروں میں دراڑ سمیت مختلف تعمیراتی نقائص کو قرار دیتے ہیں۔ یو ای جی سی ایل نے یہ بھی کہا کہ ٹھیکیدار، سائنو ہائیڈرو کارپوریشن نے ناقص تاریں، سوئچز اور آگ بجھانے کا نظام نصب کیا جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ پلانٹ ابھی تک کام کرنے کے قابل نہیں ہوا ہے مگر حکومت کو ایکسپورٹ - امپورٹ بینک آف چائنا سے لیا گیا 1.44 بلین ڈالر کا قرض واپس کرنا پڑے گا۔

یوگنڈا کے منصوبوں میں ملوث چینی کمپنیوں اور چینی حکومت نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، یہ محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔

جواب

تھر کول پاور پروجیکٹ تھرپارکر سندہ میں بھی کرپشن کی کٸی کہانیاں ھیں یہ کوٸلے سے بجلی بنانے کا بڑا منصوبہ ھے جو چاٸنا تعمیر کر رھا ھے

جواب

پاکستان میں جن منصوبوں پر چینی کمپنیوں نے کام کیا ہے ان میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ میں نے کچھ عرصہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر بھی کام کیا۔ کرپشن بھی ہوئی ہے۔ یہ منصوبہ بھی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننے جا رہا ہے۔

جواب

گھسیانی بلی کھمبا نوچے

جواب

مجھے نہیں لگتا کہ اس میں چین کی حکومت کی غلطی ہے یہ اس ملک کے حکمرانوں کی غلطی ہے جو کراپٹ ہے جو کام کے معیار نہیں دیکھتے اپنی کمیشن دیکھتے ہے

جواب

اچھا ہے

جواب