معیشت

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے پیچھے چینی قرضے مرکزی عنصر ہیں

زرق خان

21 جنوری کو کراچی میں ایک مذہبی جماعت کے ارکان افراطِ زر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

21 جنوری کو کراچی میں ایک مذہبی جماعت کے ارکان افراطِ زر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

حکومتی عہدیداران اور معاشیات دانوں کو کہنا ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین مالیاتی معاہدے پاکستان کے جاری معاشی بحران کے پیچھے ایک بڑا عنصر ہیں۔

رائیٹرز نے گزشتہ جمعہ (10 فروری) کو خبر دی کہ پیسے کی کمی کے شکار پاکستان کو مالیات کی اشد ضرورت ہے، جیسا کہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر "10 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور یہ صرف تین ہفتے کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں"۔

ملک کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ ذخائر میں کمی بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے ہوئی، جو کہ زیادہ تر چین کو کی گئیں۔

10 روزہ مزاکرات کے بعد دورے پر آیا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد 1.1 بلین ڈالر کے نہایت ضروری مالیات کو کھولنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ معاہدے پر نہ پہنچ سکنے کے بعد جمعہ کو اسلام آباد سے واپس لوٹ گیا۔

13 فروری کو کراچی میں گاہک اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں پٹرول ڈلوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے، جس سے مزدوروں کی مختلف انجمنیں اور فعالیت پسند سراپا احتجاج ہیں۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

13 فروری کو کراچی میں گاہک اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں پٹرول ڈلوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے، جس سے مزدوروں کی مختلف انجمنیں اور فعالیت پسند سراپا احتجاج ہیں۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

تاہم اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے مابین ورچؤل مزاکرات پیر سے بحال ہو گئے۔

ستمبر میں شائع ہونے والی آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اپنے بیرونی قرضوں کے 30 فیصد کے لیے چین کا مقروض ہے، جس میں ریاستی ملکیتی تجارتی بینک بھی شامل ہیں۔

دی پرنٹ نے 6 جنوری کو خبر دی، ”یہ پاکستان پر آئی ایم ایف کے قرض سے تین گنا ہے اور عالمی بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے مشترکہ قرض سے بھی زیادہ ہے۔“

معاشیات دانوں اور پالیسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین سے معاہدے کرنے والے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی چین کے ”قرضوں کے پھندے کی سفارتکاری“ کا شکار بن گیا ہے جیسا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے پاکستان جزُ چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) قرض کے پہاڑوں سے اسلام آباد پر بوجھ ڈالے جا رہا ہے۔

پاکستان کی ٹیکس جمع کرنے کی ایجنسی فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے سابق چیئرمین سید شبّر زیدی نے کہا کہ چین کو واجب الادا بڑے قرضے ہی پاکستان کی ابتر ہوتی معاشی صورتِ حال کے پیچھے بڑی وجہ ہیں۔

زیدی نے گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا، ”مالیات کو کھولنے سے آئی ایم ایف کی ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ جانتا ہے کہ پاکستان اس پیسے کو ملک میں چلنے والے چینی پاور پلانٹس کے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے استعمال کرے گا۔“

زیدی نے اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ امریکہ آئی ایم ایف میں مالی طور پر حصہ ڈالنے والا سب سے بڑا ملک ہے، کہا، ”بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا زیادہ تر حصہ چین کے لیے ہے، اور آئی ایم ایف یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان امریکہ کا پیسہ قرض لے کر پاکستان میں چین کے پاور پلانڈس کے لیے قرضوں کی ادائیگیاں کرے۔“

زیدی نے کہا کہ پاکستان کا وسیع تر معاشی مفاد مغرب میں ہے، نہ کہ چین میں۔

زیدی نے سی پی ای سی پر بھی تنقید کی اور اسے ایک ”سراب“ قرار دیا۔

21 جنوری کو گلوبل ویلیج سپیس کے ساتھ ایک جداگانہ انٹرویو میں زیدی نے سی پی ای سی کی سرمایہ کاری کی کل قدر 62 بلین ڈالر قرار دی۔

انہوں نے کہا کہ اس رقم میں سے 11 بلین حکومت سے حکومت کو سرمایہ کاری اور 51 بلین ڈالر کاروبار سے کاروبار کو ہے۔

کوئی دوست نہیں

دیگر پاکستان کے ساتھ ابدی دوستی کے چین کے دعویٰ کا پول کھول رہے ہیں۔

اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی درخواست کرنے والے، پاکستانی وزارتِ مالیات کے ایک عہدیدار نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”بیجنگ، جو 'ہر موسم کا دوست' ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،“ نے شدید معاشی صورتِ حال سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

”اس کے بجائے اس نے قرض ادا کرنے کے لیے ]ہم پر[ مسلسل دباؤ ڈالا ہے۔“

اس عہدیدار نے کہا، ”معاشی بحران میں پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے، سی پی ای سی کے تحت کام کرنے والی چینی کمپنیاں یکمشت ادائیگیاں نہ ہونے پر پاور پلانٹس پر سرگرمیاں روک دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔“

اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ کثیر بلین ڈالر کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے معاہدوں کے دوران ہی حالیہ برسوں میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کی جانب پاکستانی جذبات بڑھ گئے ہیں۔

ان معاہدوں نے مقامی رہائشیوں کے مابین چینی رسوخ، چینی کمپنیوں کی مزدوروں سے متعلق پالیسیوں اور دیگر امور سے متعلق خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

ماحولیاتی تحقیقات نے سی پی ای سی سے منسلک پاور پلانٹس کو ” بڑی حد تک فضائی آلودگی “ کا ماخذ قرار دیا ہے جس سے ملک میں متوقع عمر کم ہو جائے گی۔

گوادر میں، جہاں گہرے پانی کی ایک بندرگاہ بی آئی آئی کا طرۂ امتیاز ہے، متواتر احتجاج میں سیکیورٹی چیک پوائنٹس پر مقامی افراد کو حراساں کیے جانے اور مقامی اور چینی دام کشتیوں کی جانب سے گہرے پانی میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

عوام کی رضامندی کے بغیر بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری صوبے کی بطورِ کل سلامتی صورتِ حال کو ابتر کرتے ہوئے ان خدشات کو بڑھوتری دی ہے کہ اتحادی عسکریت پسند گروہ خطے میں پرتشدد سرگرمیاں کریں گے ۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500