اسلام آباد – سیاسی تجزیہ کاروں اور حکام نے تنبہ کی ہے کہ چینی کرنسی استعمال کرتے ہوئے روسی خام تیل کی ادائگی کے پاکستان کے حالیہ اقدام سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستانی ریاستی وزیر برائے پٹرولیم مصدق ملک نے 13 جون کو کہا کہ اسلام آباد نے رعایتی روسی خام تیل کی کھیپ کے لیے چینی کرنسی، یوان میں ادائگی کی۔
پاکستان کو 11 جون کو کراچی کے ساحلی شہر میں روسی خام تیل کی پہلی کھیپ، جو کہ 45،000 میٹرک ٹن کا مال ہے، موصول ہوئی۔
نقدی کی کمی کا شکار پاکستان ریکارڈ افراطِ زر، مالیاتی عدم توازن اور زرِ مبادلہ کے اس قدر کم ذخائر کا سامنا کر رہا ہے جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو ہی پورا کر سکتے ہیں۔
قرضوں اور چین کے ساتھ مالیاتی معاہدوںنے پاکستان کے قرضوں کو بڑھا دیا ہے اور ملک کو معاشی اور سیاسی بحران کے لیے زدپزیر کر دیا ہے۔
مزید برآں تجزیہ کار تنبیہ کرتے ہیں کہ یوان میں روسی خام تیل کی خریداری ممکنہ طور پر اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات کو تناؤ کا شکار بنا دے گی۔
واشنگٹن ڈی سی میں سٹمسن سنٹر کے زیرِ انتظام ایک آن لائن پالیسی پلیٹ فارم، ساؤتھ ایشیئن وائسز پر 11 مئی کو ایک تبصرہ میں لاہور کی جامعہ پنجاب کے ایک ماہرِ سیاسیات محمد شارح قاضی نے کہا کہ یوان-روپیہ اور ڈالر-روپیہ کے درمیان اختلافات کے پیشِ نظر، ”ممکن ہے کہ پاکستان یوان کو ایک کرنسی کے طور پر اپنانے کو مناسب سمجھے یا اس کی خواہش کرے۔“
انہوں نے مزید کہا، ”چین کے جانب تضویری رجحان کے باعث، ہو سکتا ہے کہ پاکستان ان تبدیل ہوتے عالمی محرکات سے کچھ مفادات حاصل کر سکے۔“
انہوں نے کہا، ”تاہم، ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے پاکستان خود کو امریکہ سے مکمل طور پر الگ کرلینے کے خطرہ کی زد میں آ جائے گا۔“
چند پاکستان واچرز نے تنبیہ کی کہ یوان میں تجارت کرنا پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خودکش اقدام ہو گا۔
پاکستان ٹوڈے کے مطابق، پارلیمانی سیکریٹری برائے وزارتِ تجارت، سید جاوید علی شاہ نے گزشتہ دسمبر پارلیمان کو مطلع کیا کہ (مالی سال) 2022 (1 جولائی 2021 تا 30 جون 2022) میں پاک امریکہ تجارت مالی سال 2021 کے 7.8 بلین ڈالر کے مقابلہ میں 10.5 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی۔
سالانہ اضافہ 34.6 فیصد رہا۔
انہوں نے کہا کہامریکہ پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا واحد-ملکی درآمد کنندہ ہے۔
امریکہ کو کپڑے کے ایک برآمد کنندہ، کراچی سے تعلق رکھنے والے امجد چاولہ نے کہا، ”چین کے ساتھ معاہدات کرنے سے قبل اسلام آباد کو حقیقت پسندی سے سوچنا چاہیئے، بطورِ خاص بین الاقوامی کاروبار چینی کرنسی میں کرتے ہوئے۔“
انہوں نے کہا، ”پاکستان کی جانب سے چینی کرنسی کی قبولیت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا پائے گی۔ بلکہ اس سے امریکہ کے ساتھ تعلقات ابتر ہوں گے۔“
انہوں نے کہا، ”پاکستان تناؤ کے شکار چین امریکہ تعلقات کا فائدہ اٹھا کر بیجنگ کو خوش کرنے کے قلیل المعیاد اقدامات کرنے کے بجائے امریکہ کو اپنی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھا سکتا ہے۔“
چینی کرنسی کا عدم استحکام
معاشیات دانوں نے اسلام آباد کو چینی کرنسی کے استحکام سے متعلق خبردار کیا ہے، کیوںکہ یوان امریکی ڈالر کے مقابلہ میں تیزی سے گر رہا ہے۔
مارکیٹس انسائیڈر نے گزشتہ بدھ (14 جون) کو خبر دی کہ چینی یوان ”مایوس کن بعد از COVID معاشی بحالی کے دوران نومبر سے اب تک امریکی ڈالر کے مقابلہ میں اپنی کم ترین سطح پر ہے۔“
اس رپورٹ میں میکوائر گروپ میں زرِ مبادلہ کے ایک پالیسی ساز ترنگ تھوئی لی کے حوالہ سے کہا گیا کہ ایک دیگر اقدام کی بنیاد پر، ”یوان دراصل 2014 سے اب تک کی کم ترین سطح پر ہے۔“
چین سے باہر یوان کا قابلِ استعمال ہونا ایک دیگر خدشہ ہے۔
کراچی کے ٹیکسٹائل برآمد کنندہ چاولہ نے کہا، ”چین کی کرنسی کے استحکام کے بعد، دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ایک عالمی کرنسی کے طور پر اس کی قبولیت ہے۔“
انہوں نے کہا، ”عالمی منڈی میں امریکی ڈالر، یورو، اور جاپانی یین عمومی طور پر سب سے زیادہ مستعمل کرنسیاں ہیں۔“
انہوں نے کہا، ”امریکی ڈالر ایک مستحکم کرنسی ہے؛ لہٰذا، عالمی تاجروں کو اس پر اعتماد ہے۔“