معیشت

موقع کی دستک: یوکرین پر جنگ مسلط ہونے کے ساتھ چین میں روسی تاجر منافع کے متلاشی

پاکستان فاروڈ اور اےا یف پی

22 مارچ کو بیجنگ میں کپڑے کی ایک روسی دکان کے باہر سے لوگ گزر رہے ہیں۔ چین کے کسٹمز اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ برس 147 بلین ڈالر تک پہنچتے ہوئے بیجنگ ماسکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جو کہ 2019 کی نسبت 30 فیصد سے زائد اضافہ ہے۔ [جاڈے گاؤ/اے ایف پی]

22 مارچ کو بیجنگ میں کپڑے کی ایک روسی دکان کے باہر سے لوگ گزر رہے ہیں۔ چین کے کسٹمز اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ برس 147 بلین ڈالر تک پہنچتے ہوئے بیجنگ ماسکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جو کہ 2019 کی نسبت 30 فیصد سے زائد اضافہ ہے۔ [جاڈے گاؤ/اے ایف پی]

بیجنگ— شنگھائی اساسی ایک روسی تاجر مارت کے لیے اسکے وطن پر پابندیاں چین میں ایک غیر متوقع موقع کی نوید لے کر آئی ہیں کیوں کہ کمپنیاں اپنی رسد کے سلسلہ کو کھلا رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس 42 سالہ شخص سے پہلے ہی یورپ سے رسد فراہم کنندگان سے کٹ جانے پر چین میں شراکت داروں کی متلاشی ایک بڑی کمپنی نے رابطہ کیا ہے۔

اس نے کہا کہ بیلاروس، ایک روسی اتحادی جسے یوکرین پر حملے کی حمایت کرنے پر پابندیوں کا سامنا ہے، میں مقیم فرم کا پیغام تھا "'بس تیار رہو".

چین میں رہتے ہوئے جنگ پر تبصرہ کرنے کی حساسیت کی وجہ سے صرف ایک ہی نام بتانے والے مارت نے کہا، "یہ میرے لیے ایک بڑا کام ۔۔۔ اور نتیجتاً بڑا صلہ ہو گا۔"

کریملین اور بیجنگ، ہر دو نے یوکرین میں جنگ پر تبصرے کی سخت ممانعت کر رکھی ہے—بشمول صحافیوں کے لیے "حملہ" اور "جنگ" کے الفاظ استعمال کرنے کی ممانعت—اور اس سے متعلقہ غلط معلومات کی مہمات اور روس موافق پراپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹین کی جانب سے یوکرین پر خون آشام حملے کے آغاز کے بعد سے مغربی صدرہائے مقام نے ماسکو کو عالمی مالیاتی نظام میں منجمد کرتے ہوئے اس کی کرنسی کو تیز گراوٹ میں دھکیل دیا ہے اور ملک دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچ گیا ہے۔

یہاں تک وہ وسط ایشیائی ممالک بھی، جو پہلے سوویت یونیئن کا جزُ تھے، حملے کی مخالفت میں شامل ہو گئے ہیں۔ قبل ازاں مارچ میں ازبک حکومت نے واضح کر دیا کہ وہ یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ قازق حکومت نے روس کی مدد کے لیے یوکرین میں افواج بھیجنے سے انکار کر یدا اور 6 مارچ کو المتے میں ایک یوکرین موافق مظاہرے کی اجازت دے دی۔

روس کی جنگی کاوشوں کی حمایت

لیکن – طویل عرصے سے ایک روسی اتحادی – چین نے اس کی پیروی کرنے سے انکار کرتے ہوئے، ماسکو کو ایک ممکنہ معاشی لائف لائن فراہم کر کے اس سفارتی آڑ سے مماثلت پیدا کی جو اس نے حملے کی مذمت سے انکار کر کے فراہم کر رکھی ہے۔

نیٹو کے سربراہ جینس سٹولٹنبرگ نے 23 مارچ کو چین پر روس کی سیاسی پشت پناہی کا الزام لگایا اور بیجنگ کو ماسکو کی جنگی کاوشوں کو مادی معاونت فراہم کرنے کے خلاف تنبیہ کی۔

انہوں نے جمعرات کو ایک فوری نیٹو اجلاس سے قبل کہا، "چین نے روس کو سیاسی حمایت فراہم کی ہے، جس میں صریح جھوٹ اور غلط معلومات پھیلانا شامل ہے، اور اتحادی اس امر سے متفکر ہیں کہ چین روسی حملے کے لیے مادی معاونت بھی فراہم کر سکتا ہے۔"

"مجھے توقع ہے کہ قائدین چین سے اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کاؤنسل کا ایک رکن ہونے کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے، روس کی جنگی کاوشوں کی معاونت سے باز رہنے اور اس جنگ کے ایک فوری اور پرامن خاتمہ کا مطالبہ کرنے میں دیگر دنیا کے ساتھ شامل ہونے کا مطالبہ کریں گے۔"

چین کے کسٹمز اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ برس 147 بلین ڈالر تک پہنچتے ہوئے بیجنگ پہلے ہی ماسکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جو کہ 2019 کی نسبت 30 فیصد سے زائد اضافہ ہے۔

جنگ کے آغاز ہی سے معاشی سرگرمی میں ایک اچھال کے آثار ہیں، جبکہ سرحد پار کے تاجران اے ایف پی کو بتا رہے ہیں کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ روس کی مانگ کا جھکاؤ مشرق کی جانب ہو جائے گا۔

بیجنگ اساسی ایک دیگر روسی کاروباری شخص نے فرضی نام ویلادیمیر استعمال کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، "یہ بحران چین میں روسی کمپنیوں کے لیے ایک موقع ہے۔"

انہوں نے کہا، "چین کھلا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں، کہ اگر آپ کچھ بھی خریدنا چاہتے ہیں، ہمارے پاس [وہ] ہے۔"

روبل مشکل میں

لیکن اس کے باوجود چین میں روس سے تجارت کرنے والے کاروباروں کے لیے چند ہفتے سے مشکلات رہی ہیں۔

کیڑے مار ادویات سے گاڑیوں کے پرزہ جات تک ہر شے میں کاروبار کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ روبل کی قدر میں بے لگام تبدیلیاوں نے متعدد روسی گاہکوں کو نئے آرڈر دینے سے روک دیا ہے۔

روسی بینکوں کے ایس ڈبلیو آئی ایف ٹی نظام سے اخراج کے بعد ڈالروں میں ادائگیاں نہ کر پانے والے دیگر چینی یوان میں لین دین مکمل کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی دوڑ میں لگے رہے۔

درایں اثناء، سامان کی کھیپیں تاخیر کی وجہ سے مصیبت کی زد میں آگئیں کیوں کہ بڑے کورئیرز نے روس سے آنے والی ترسیلات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کیوںکہ دنیا کے سب سے بڑے ملک میں چند راستے بند ہو گئے۔

روسی سامانِ خوراک کو چین میں درآمد کرنے کے ماہر ویلادیمیر نے کہا، "سب کسی نسبتاً یقینی کیفیت کے منتظر ہیں۔"

"سب یہی سوچ رہے ہیں۔۔۔ اگر جنگ جلد ختم ہو جائے تو پابندیاں منسوخ ہو سکتی ہیں۔"

’چین کے لیے بہتر‘

حالیہ برسوں میں چین اور روس قریب تر ہو گئے ہیں، جبکہ بیوٹن نے گزشتہ ماہ نمایاں طور پر بیجنگ ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

آمر رہنما اور ان کے چینی ہم منصب ژی جنگ پی نے "لا محدود" رشتے کا اعلان کیا، جو اربوں ڈالر مالیت کے روسی تیل اور گیس کی خریداری کے معاہدوں سے مزید شکر آمیز ہو گیا۔

بیجنگ میں دو روسی تجارتی بازاروں میں جو سٹال وبا سے قبل برآمد کے لیے تیار سلے کپڑوں اور ان سلے کپڑوں سے بھرے ہوتے تھے، اب وہ بند دروازوں کے پیچھے خالی ہیں۔

مارت نے کہا کہ جنگ اور پابندیاں مختلف صنعتوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کریں گے، کیوں کہ بھاری ابتدائی اور عملیاتی لاگت والے شعبہ جات – جیسا کہ کیمیلز – ممکنہ طور پر سستی، تیز ترسیل والی اشائے تصرف کی نسبت زیادہ قیمت چکائیں گے۔

چینی کاروبار اس امر پر منقسم ہیں کہ مستقبل کیسا ہے، متعدد روسی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی کے لیے تیار ہیں۔

لیکن دیگر شراکت داری کے لیے بے تاب روسی معیشت سے چین کو حاصل ہونے والے طویل المدت فوائد کو دیکھ رہے ہیں۔

دنیا کے سب سے بڑے ملک کے اندر کام کرنے والے چینی کاروباریوں کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔

ای کامرس پلیٹ فارم چلانے والے 38 سالہ چی داشوائی نے اپنی ماسکو بیس سے اے ایف پی کو بتایا، "بلا شبہ یہ چین کے لیے اچھا ہے کہ روس مغربی پابندیوں کے تحت آ گیا ہے۔"

انہوں نے کہا، اگر ماسکو یہاں کاروبار کرنا آسان بنا دے تو چینی فرمز نیم تیار مال کے لیے یہاں کارخانے لگانے کے لیے دوڑیں گی۔

انہوں نے کہا، "طویل مدت میں چین کے لیے فوائد، نقصانات سے زیادہ ہوں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500