سفارتکاری

روس سے چین کی تیل کی درآمدات میں اضافہ، کریملن کے سامراجی عزائم کے لیےجلتی پر تیل ڈالنا ہے

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

مئی میں روسی توپ خانے نے یوکرین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ [روسی وزارت دفاع 3]

مئی میں روسی توپ خانے نے یوکرین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ [روسی وزارت دفاع 3]

بیجنگ -- روس چین کے لیے تیل کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے کیونکہ بیجنگ اور چینی کمپنیاں سخت مغربی پابندیوں سے رہ جانے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھی ہیں۔

چین کے کسٹمز حکام کی جانب سے 20 جون کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مئی میں چین نے روس سے 8.4 ملین ٹن تیل درآمد کیا -- -- ایک 55 فیصد اضافہ – جو سعودی عرب سے 7.8 ملین ٹن کے مقابلے میں ہے۔

چین کو روسی تیل کی برآمدات کا حجم پچھلے مہینے کے مقابلے میں 28 فیصد بڑھ گیا، جو ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا اور کریملن کو 5.7 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔

بلومبرگ نیوز کے مطابق، مجموعی طور پر، مئی میں چین نے روس سے 7.47 بلین ڈالر مالیت کی توانائی کی مصنوعات خریدیں، جو اپریل کے مقابلے میں تقریباً 1 بلین ڈالر زیادہ ہیں۔

روس کے میزائل حملے کے ایک دن بعد 28 جون کو ایک امدادی اہلکار یوکرین کے کریمنچوک میں ایمسٹر مال کا ملبہ صاف کرتے ہوئے۔ [جینیا ساویلوف/اے ایف پی]

روس کے میزائل حملے کے ایک دن بعد 28 جون کو ایک امدادی اہلکار یوکرین کے کریمنچوک میں ایمسٹر مال کا ملبہ صاف کرتے ہوئے۔ [جینیا ساویلوف/اے ایف پی]

30 مارچ کو سرکاری نشریاتی ادارے چائنا سنٹرل ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کی ویڈیو سے لی گئی سکرین کی اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف (بائیں) فروری میں ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، اپنے چینی ہم منصب وینگ یی سے انہوئی صوبے کے شہر ہوانگ شان میں اپنے پہلے دورۂ چین کے دوران ملاقات کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی ٹی وی/سی سی ٹی وی/اے ایف پی]

30 مارچ کو سرکاری نشریاتی ادارے چائنا سنٹرل ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کی ویڈیو سے لی گئی سکرین کی اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف (بائیں) فروری میں ماسکو کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، اپنے چینی ہم منصب وینگ یی سے انہوئی صوبے کے شہر ہوانگ شان میں اپنے پہلے دورۂ چین کے دوران ملاقات کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی ٹی وی/سی سی ٹی وی/اے ایف پی]

آمدنی کا یہ ذریعہ کریملن کے لیے بہت اہم رہا ہے کیونکہ اس نے یوکرین پر اپنے وحشیانہ حملے کو جاری رکھا ہوا ہے، اور جیسا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن خود کو پیٹر دی گریٹ سے تشبیہ دیتے ہیں، جس نے 18ویں صدی میں روسی سلطنت کو وسعت دی۔

چینی صدر شی جن پنگ نے 15 جون کو پیوٹن کو روس کی "خودمختاری اور سلامتی" پر چین کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔

چین نے یوکرین پر ماسکو کے بڑے پیمانے پر فوجی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ مغربی پابندیوں اور کیف کو ہتھیاروں کی فروخت کو ہوا دے کر روس کو سفارتی کور فراہم کر رہا ہے۔

سرکاری نشریاتی ادارے چائنا سنٹرل ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) نے پیوٹن کے ساتھ کال پر بات چیت کے دوران شی کا یہ کہنا بیان کیا کہ چین "بنیادی مفادات اور بڑے خدشات جیسے کہ خودمختاری اور سلامتی سے متعلق امور پر [روس کو] باہمی تعاون کی پیشکش جاری رکھنے کے لیے تیار ہے"۔

24 فروری کو پیوٹن کے یوکرین پر حملے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، کے آغاز کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسری مبینہ کال تھی۔

سی سی ٹی وی کے مطابق، شی نے سال کے آغاز سے "عالمی بحران اور تبدیلیوں کے تناظر میں" دو طرفہ تعلقات میں "ترقی کی اچھی رفتار" کی تعریف کی۔

مبینہ طور پر شی کا کہنا تھا کہ بیجنگ "دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی تعاون کو تیز کرنے کے لیے تیار ہے"۔

کریملن نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے معاشی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔.

فون کال کے بعد کریملن نے کہا، "مغرب کی غیر قانونی پابندیوں کی پالیسی کی وجہ سے عالمی معیشت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی، مالیاتی، صنعتی، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا ہے"۔

'تاریخ کا غلط رخ'

امریکہ نے ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی کھلے عام صف بندی پر ایک فوری سرد رویئے میں جواب دیا ہے۔

محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا، "چین غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کے رویے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اب بھی روس کے ساتھ قریبی تعلقات میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔"

بیان میں آگے چل کر کہا گیا، "چین پہلے ہی انتخاب کر چکا ہے۔"

بیان میں کہا گیا کہ یوکرین میں روس کی جنگ کو تقریباً پانچ ماہ گزر چکے ہیں، "چین اب بھی روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ اب بھی روسی پروپیگنڈہ دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے۔ وہ اب بھی بین الاقوامی تنظیموں میں روس کی ڈھال بنا ہوا ہے... اور وہ اب بھی یوکرین میں روس کے مظالم کو من گھڑت کہہ کر مسترد کر رہا ہے۔"

"جو قومیں ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ کھڑی ہیں وہ لامحالہ خود کو تاریخ کے غلط رخ پر پائیں گی۔"

بیان میں کہا گیا ہے، "یہ لمحۂ فکریہ یا چھپنے یا یہ دیکھنے کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ پہلے ہی واضح ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔"

یوکرین پر حملے کے بدلے میں مغرب نے روس پر بے نظیر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ماسکو یورپ اور امریکہ پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس طرح وہ عالمی اقتصادی سست روی کا سبب بن رہے ہیں۔

ماسکو ان بڑی غیر ملکی فرموں کو تبدیل کرنے کے لیے نئی منڈیوں اور سپلائرز کی تلاش میں بھی ہے جنہوں نے حملے کے بعد روس کو چھوڑ دیا تھا۔

یورپی یونین اور امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے روس کی جنگ کے لیے کسی بھی طرح کی حمایت یا مغربی پابندیوں سے بچنے کے لیے ماسکو کی مدد سے روابط کو نقصان پہنچے گا۔

'لامحدود' دوستی

کبھی سرد جنگ کرنے والے جانی دشمنوں، بیجنگ اور ماسکو نے حالیہ برسوں میں تعاون کو اس چیز کو متوازن کرنے کے لیے بڑھایا ہے جسے وہ امریکی عالمی غلبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہ جوڑا سیاسی، تجارتی اور عسکری شعبوں میں قریب آ گیا ہے اس چیز کے جزو کے طور پر جسے وہ "لامحدود" رشتہ کہتے ہیں.

اس ماہ انہوں نے دونوں ممالک کو ملانے والی سڑک کے پہلے پُل کی نقاب کشائی کی، جو روس کے بلاگوویشینسک کو چین کے ہیہی سے ملاتا ہے۔

رہنماؤں کی کال 15 جون کو شی جن پنگ کی 69 ویں سالگرہ پر ہوئی تھی اور روس کے یوکرین پر حملے کے دن کے بعد سے یہ ان کی پہلی مبینہ بات چیت تھی۔

چین کے کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق، بیجنگ ماسکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس کا تجارتی حجم گزشتہ سال 147 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500