سفارتکاری

بیجنگ کی جانب سے ماسکو کے ساتھ ’چٹان جیسے مضبوط‘ اتحاد کی تشہیر کے ساتھ چین کی روس کو برآمدات میں اضافہ

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

4 مارچ کو بیجنگ میں ایک گلی کے کنارے ایک شخص روس کو سامان بھیجنے کی تشہیر کرنے والی ایک دکان کے پاس سے گزر رہا ہے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

4 مارچ کو بیجنگ میں ایک گلی کے کنارے ایک شخص روس کو سامان بھیجنے کی تشہیر کرنے والی ایک دکان کے پاس سے گزر رہا ہے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

بیجنگ—چین نے پیر (7 مارچ) کو کہا کہ بڑھتی ہوئی برآمدات کے ساتھ اور یوکرین پر روس کے جاری حملے کی بین الاقوامی مذمت کے باوجود ابھی بھی بیجنگ اور ماسکو کے درمیان دوستی "چٹان جیسی مضبوط" ہے۔

گزشتہ ماہ چین نے دونوں ملکوں کے درمیان "لا محدود" تضویری شراکت داریکا اعلان کرنے کے بعد اپنے قریبی اتحادی ماسکو کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

بیجنگ میں چینی قیادت کی سالانہ سیاسی کانگریس کے دوران وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا، "دونوں ملکوں کے درمیان دوستی چٹان سی مضبوط ہے، اور طرفین کے مستقبل کی معاونت کے امکانات نہایت وسیع ہیں۔"

وزیرِ خارجہ نے چین روس تعلقات کو "دنیا میں اہم ترین دوطرفہ تعلقات" کے طور پر بیان کیا، جو کہ "عالمی امن، استحکام اور ترقی کے لیے معاون ہیں۔"

اگرچہ معاشی شراکت داری نہایت غیر مساوی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، 2020 میں چین کا جی ڈی پی روس سے دس گنا زیادہ تھا— 1.5 ٹرلین ڈالر سے کم کے مقابلہ میں 14.7 ٹرلین ڈالر سے زائد۔

گیزپروم اور بینکوں کا چین کی جانب جھکاؤ

پابندیوں کی لپیٹ میں آنے کے بعد، بڑی روسی کوآپریشنز چین پر انحصار کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

رواں ماہ روسی گیس کی بڑی کمپنی گیزپروم نے کہا ہے کہ اس نے یورپی خریداروں پر روس کے انحصار میں سہولت پیدا کرسکنے والے رسد کے ایک نئے معاہدے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے چین کی جانب ایک پائپ لائن مرتب کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

اور روسی بینکوں نے اتوار کو کہا کہ انہوں نے ماسکو پر بے نظیر پابندیوں کے دوران ویزا اور ماسٹرکارڈی کی جانب سے کاروائیاں معطل کرنے کے اقدام کے بعد چین کا یونیئن پے نظام استعمال کرنے والے کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وانگ نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو، جنہوں نے حالیہ دنوں میں تنازع میں ثالثی کا فعال تر کردار ادا کرنے کے لیے چین کو ترغیب دلائی ہے، تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا غیر روایتی اتحاد "فریقینِ ثالث کی مداخلت برداشت نہں کرے گا۔"

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم نے چین پر اپنے روسی اتحادی کی کاروائیوں کو درست کرنے اور بیجنگ کے عالمی امن کے لیے پرعزم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر روس کا حملہ "چین کے لیے انتخاب کی ایک گھڑی ہے۔"

سکاٹ موریسن نے ایک تھنک ٹینک لووی انسٹیٹیوٹ کو بتایا، "اس وقت یوکرین کے خلاف روس کی پرتشدد جارحیت پر چین سے زیادہ کسی ملک کا اثر نہ ہو گا۔"

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس کے حملے نے خودمختار جزیرہٴ تائیوان، جس پر بیجنگ اپنا علاقہٴ عملداری ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، کی جانب ایسی ہی کاروائی کے لیے چین کو دلیر کر دیا ہے۔

بڑھتی ہوئی برآمدات

پیر کو جاری ہونے والے چینی کسٹمز ڈیٹا کے مطابق، جنوری اور فروری میں مشترکہ طور پر چینی برآمدات میں بڑھتی ہوئی عالمی طلب کے دوران 16.3 فیصد اضافہ ہوا اور یوکرین میں جنگ کے بعد روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا۔

شرحِ ترقی میں معاشیات دانوں کی ایک برس قبل کی 15.7 فیصد توقع سے زیادہ اضافہ ہوا۔

روس کو برآمداد میں گزشتہ برس کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں 41 فیصد اضافہ ہوا۔

جنوری اور فروری میں چین کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے روس کو برآمدات میں تیز ترین شرح پر اضافہ ہوا اور یورپی یونیئن اور امریکہ کے ساتھ تجارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔

چین کے لیے بھی روس درآمدات کا دوسرا بڑا ذریعہ رہا، جو اپنے ہمسایہ سے توانائی کی مصنوعات خریدتا ہے۔

چین کے ساتھ تجارت روس کے لیے محافظِ جان ثابت ہوئی، جسے پہلے ہی 2014 میں یوکرین سے کریمیا پر قبضہ کرنے پر مغرب سے پابندیوں کا سامنا تھا۔

گزشتہ ماہ شروع ہونے والے حملہٴ یوکرین کے بعد ماسکو کی بین الاقوامی تنہائی بڑھ گئی ہے۔

چین کی وزارتِ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق، چین ایک دہائی سے زائد سے روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔

بیجنگ نے یوکرین میں نفرتیں پھیلنے سے کچھ ہی گھنٹے قبل روسی گندم کی درآمدات کی منظوری دی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500