سفارتکاری

روس کے بحران پر بیجنگ کا 'انتظار کرو اور دیکھو' نقطہ نظر، پوتن پر اعتماد میں کمی ظاہر کرتا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ماسکو میں 21 مارچ کو کریملن میں ہونے والی بات چیت کے بعد استقبالیہ کے دوران، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر ژی جنپنگ ٹوسٹ کر رہے ہیں۔ [پاول برکین/سپوتنک/اے ایف پی]

ماسکو میں 21 مارچ کو کریملن میں ہونے والی بات چیت کے بعد استقبالیہ کے دوران، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر ژی جنپنگ ٹوسٹ کر رہے ہیں۔ [پاول برکین/سپوتنک/اے ایف پی]

بیجنگ - - تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس میں کسی نسلوں میں ایک بار ہونے والے سیکیورٹی کے بحران نے، بیجنگ میں یہ خدشہ پیدا کیا کہ ایک ایسا اسٹریٹجک پارٹنر جو اس کے عالمی عزائم کا مرکز ہے، اتنا مستحکم نہیں ہے جتنا کہ اسے امید تھی ۔

فروری 2022 میں ماسکو کی طرف سے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے چین، روس کے مرکزی اتحادی کے طور پر ابھرا ہے، جس سے روس بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو گیا تھا۔

مارچ میں، ماسکو میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس کے دوران، صدور ژی جنپنگ اور ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا کہ ان کے وسیع ممالک کے تعلقات "ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں"۔

اس ہفتے کے آخر میں روس میں آنے والے بحران میں، کرایے کے سپاہیوں کے نجی گروہ، ویگنر گروپ کے سربراہ ییگجینی پرگوزین، ماسکو میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

پرگوزین کے مطابق ، ماسکو کے جنوب میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر رکنے سے قبل، ہفتہ (24 جون) کو ویگنر کے کرایے دار تقریبا 900 کلومیٹر دور تک آ گئے تھے۔

پرگوزین نے ایک ایسا معاہدہ قبول کر لیا جس کے تحت اسے بیلاروس جلا وطن کر دیا گیا۔

چین نے اتوار کی شام کو اپنی رائے کا اظہار کیا - بغاوت شروع ہونے کے تقریباً 24 گھنٹوں کے بعد۔

وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ "ایک دوست پڑوسی اور ایک نئے دور کے جامع اسٹریٹجک کوآپریٹو شراکت دار کی حیثیت سے، چین قومی استحکام کے تحفظ اور ترقی اور خوشحالی کے حصول میں روس کی حمایت کرتا ہے۔"

وزارت نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ روس کا "داخلی معاملہ" تھا۔

اتوار کے روز ، چینی وزیرِ خارجہ کن گینگ نے بیجنگ میں روسی نائب وزیر خارجہ آندرے روڈینکو سے ملاقات کی۔

بیجنگ نے کہا کہ دونوں سفارتکاروں نے "چین روس تعلقات" پر تبادلہ خیال کیا، اور ساتھ ہی "مشترکہ تشویش کے بین الاقوامی اور علاقائی امور" بھی زیرِ بحث آئے۔

مذاکرات کے بارے میں بات چیت کے دوران، ماسکو نے کہا کہ بیجنگ نے "ملک کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لئے روسی فیڈریشن کی قیادت کی کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے"۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں ایک غیر جانبدار فریق ہے لیکن مغربی ممالک کی طرف سے ماسکو کی مذمت کرنے سے انکار کرنے اور روس کے ساتھ اس کے تعلقات پر، اس پر تنقید کی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین نے روس کے ساتھ تعلقات میں بالادستی رکھتا ہے اور ماسکو کی بین الاقوامی تنہائی کے گہرا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔

'کافی حیران کن'

جب تک وزارتِ خارجہ نے اپنا بیان جاری کیا اس وقت تک روس میں بغاوت کو ختم کردیا گیا تھا اور کریملن نے بیلاروس کے لئے پرگوزین کی روانگی اور اس کے یا ویگنر کے ممبروں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے بحران کے بارے میں "انتظار کرو اور دیکھو" کے طریقہ کار کا انتخاب کیا جس کا ایک وجہ اس بات کا اداراک تھا کہ بغاوت نے پوتن کی گرفت میں موجود دراڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ایشیاء میں مہارت رکھنے والے سابق سینئر امریکی سفارتکار، سوسن تھورنٹن نے ای میل کے ذریعہ اے ایف پی کو بتایا کہ "چین پہلے ہی یوکرین میں روس کی ناقص فوجی کارکردگی پر حیرت کا شکار رہا ہے۔"

"اس واقعے کو ممکنہ طور پر کمزوری/زوال کے مزید اشارے کے طور پر دیکھا جائے گا۔"

چین کے رہنماؤں نے پوتن کے روس کو طویل عرصے سے مغرب کے خلاف دفاعی انتظام کے طور پر تیار کیا ہے۔

سان ڈیاگو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (یو سی سان ڈیاگو) میں، چینی سیاست کے ماہر وکٹر شیہ نے کہا کہ تازہ ترین بدامنی سے قبل، بیجنگ کو ممکنہ طور پر "شک نہیں تھا کہ پوتن روس کے غیر متنازعہ رہنما ہیں"۔

شیہ نے کہا کہ لیکن اُس کے اختیار کو اس طرح کے "کھلم کھلا انداز" میں چیلنج کرنے کے ساتھ ہی "چین اب روس میں اختیارات کی حرکیات کے بارے میں بہت سخت سوچ بچار کرے گا۔"

چین کے کسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق، چین روس کا سب سے بڑا معاشی شراکت دار ہے اور ان کے درمیان تجارت گزشتہ سال 190 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

بیجنگ کے مطابق ، یوکرین پر حملے کے بعد سے چین کی روسی خام تیل کی درآمد تقریبا دوگنی ہوچکی ہے۔

چین میں بیجنگ-ماسکو تعلقات کے ماہر، بورن الیگزینڈر ڈوبن نے کہا کہ "یہ شاید بیجنگ اور ژی جنپنگ کے لئے ذاتی طور پر بہت حیران کن تھا کہ روس کے تمام داخلی دفاعی طریقہ کار ناکام ہو گئے۔"

"یہ یقینی طور پر اس سے سبق سیکھنا چاہے گا۔"

'ایک نیا گراو'

چین کو طویل عرصے سے اپنے شمالی پڑوسی ملک میں ہونے والے ڈرامائی واقعات نے جکڑے رکھا ہے -- اس کی قیادت سوویت یونین کے اچانک خاتمے اس کے نتیجے میں ہونے والی افراتفری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیجنگ کے حکومت کے سخت نظام کو جائز ثابت کرتی ہے۔

اوہائیو میں وٹین برگ یونیورسٹی کے پروفیسر یو بن نے کہا کہ "چین، روس میں ان ڈرامائی تبدیلیوں کے عادی ہے، حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کو پسند کریں۔"

روس میں خانہ جنگی کا خدشہ کئی ہفتوں سے منڈلا رہا تھا کیونکہ کریملن کے اندر مختلف دھڑوں میں جھگڑے تیزی سے عوام کے سامنے آتے جا رہے تھے۔

رائٹرز نے خبر دی ہے کہ پرگوزین نے 24 مئی کو متنبہ کیا تھا کہ جب تک کہ قوم کی اشرافیہ جنگ سے لڑنے میں سنجیدہ نہیں ہو جاتی روس کو انقلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یوکرین میں تنازعہ میں ناکامی حاصل ہو سکتی ہے۔

ہفتے کے آخر میں ہونے والے واقعات سے، بیجنگ کی ماسکو کی شرائط پر یوکرین جنگ کو ختم کرنے کے لئے امن ساز کا کردار ادا کرنے کی کوششوں میں بھی تیزی لائی جا سکتی ہے۔

یوسی سان ڈیاگو کے شیہ نے کہا کہ "تازہ ترین واقعات روس کی ریاستی صلاحیت اور روس میں سیاسی استحکام کے چینی جائزوں میں ممکنہ طور پر ایک نئی تنزلی ہیں۔"

"یہ ایک واضح علامت ہے کہ یوکرین پر حملہ روس میں بنیادی استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔"

کارنیگی روس یوریشیا سنٹر کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گیبیوف نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ چین نے اپنے حلیف کو شرمندہ کرنے کے خدشات کے پیشِ نظر اپنے ردعمل کو ناپ تول کر پیش کیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ "چین بہت، بہت احتیاط سے چل رہا ہے۔"

"مجھے لگتا ہے کہ روس میں بغاوت حیرت کی بات ہے۔ آپ [چینی] ذرائع ابلاغ کو دیکھتے ہیں اور سرکاری بیانات میں ہر شخص بہت محتاط ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500