سلامتی

شام اور یوکرین میں روس کی کوششیں تضویری کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں

اولہا چیپل

26 دسمبر کو دولئینا، یوکرین میں لشکرِ آزادیٔ روس میں شریک ہو کر یوکرین کی جانب سے لڑنے والے ایک روسی نے اس لشکر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ لشکرِ آزادیٔ روس مارچ 2022 میں تشکیل پانے والا غیرملکی رضاکاروں پر مشتمل ایک لشکر ہے، جس میں روسی فوج سے منحرف ارکان اور روسی اور بیلاروسی رضاکار شامل ہیں۔ ]سمیر الدئومی/اے ایف پی[

26 دسمبر کو دولئینا، یوکرین میں لشکرِ آزادیٔ روس میں شریک ہو کر یوکرین کی جانب سے لڑنے والے ایک روسی نے اس لشکر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ لشکرِ آزادیٔ روس مارچ 2022 میں تشکیل پانے والا غیرملکی رضاکاروں پر مشتمل ایک لشکر ہے، جس میں روسی فوج سے منحرف ارکان اور روسی اور بیلاروسی رضاکار شامل ہیں۔ ]سمیر الدئومی/اے ایف پی[

کیف– یوکرین پر روس کے حملے اور جنگ کے طول پکڑنے سے اس کی بڑھتی ہوئی ناکامیوں سے قبل، اس کے عرب اتحادی ماسکو کو ایک ایسی فوج تصور کرتے تھے جس سے الحاق کیا جا سکے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب موجیں رخ بدل رہی ہیں، اور روس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے سے کہیں چھوٹے حریف یوکرین پر قبضہ کرتے ہوئے روس نے پے در پے جن جنگی شکستوں کا سامنا کیا ہے وہ شام میں اس کی مایوسی کا ہی تسلسل ہیں، جہاں روسی صدر ویلادیمیر پیوٹین غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

اب یہ امر واضح ہے کہ روس، جو ایک عسکری قوت ہونے کا خواہاں ہے، اپنے افعال کی بہتر طور پر منصوبہ بندی کرنے اور ان کے حقیقی نتائج کی پیشگوئی کرنے سے قاصر ہے۔

29 نومبر کو لندن میں جنگی جرائم کی ایک نمائش کی افتتاحی تقریب کے دوران یوکرین کی خاتونِ اوّل اولینا زیلینسکا خطاب کر رہی ہیں۔ ]جیمز میننگ / پول/ اے ایف پی[

29 نومبر کو لندن میں جنگی جرائم کی ایک نمائش کی افتتاحی تقریب کے دوران یوکرین کی خاتونِ اوّل اولینا زیلینسکا خطاب کر رہی ہیں۔ ]جیمز میننگ / پول/ اے ایف پی[

24 اکتوبر کو دؤما میں شامی حکام کی جانب سے منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران ایک روسی فوجی محافظ کھڑا ہے۔ ]لووائی بیشارا/اے ایف پی[

24 اکتوبر کو دؤما میں شامی حکام کی جانب سے منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران ایک روسی فوجی محافظ کھڑا ہے۔ ]لووائی بیشارا/اے ایف پی[

کیف کے ایک سیاسیات دان اور متحدہ یوکرین میں ایک تجزیہ کار دمئیترو لیوس نے کہا، "روس جنگی حکمتِ عملی ترتیب دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن نرم بات کی جائے تو یہ ]حکمتِ عملی[ مناسب نہیں۔"

شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے حمایت کے ساتھ، کریملن نے خطے کو غیرمستحکم کیا لیکن اپنی صلاحیتوں کا زیادہ اندازہ لگاتے ہوئے اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیں کیے۔

لیوس نے کہا کہ الاسد کی حکومت پر روس کا داؤ "درست ثابت ہوا کیوں کہ وہ برقرار رہی۔ لیکن عالمی طور پر روسی شام میں قدم جمانے میں ناکام رہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "وہ اپنے رسوخ میں اجارہ داری نہیں بنا سکے جو وہ اصل میں چاہتے تھے۔ ترکی اور امریکہ نے مداخلت کی۔ یہ بنیادی غلط اندازہ تھا۔"

روس کی حد سے زیادہ خوداعتمادی

گزشتہ موسمِ بہار جنگ کے لیے تیار روسی یونٹس کو کییو کے باہر شکست کے بعد، کریملن نے یوکرین میں تعینات کرنے کے لیے شام سے اپنی افواج کے انخلاء کا آغاز کیا۔

اس نے یوکرین میں لڑنے کے لیے ویگنر گروہ کے نئے تنخواہ دار سپاہی بھی بھرتی کرنے شروع کر دیے، اور شام، وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) اور دیگر محاذوں سے، جہاں اس گروہ کی موجودگی تھی، جنگجوؤں کی بھی نئی تعیناتیاں شروع کر دیں۔

اس اقدام نے مشرقِ وسطیٰ میں روس کی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا۔

علومِ مشرقِ وسطیٰ کے لیے روسی اکادمیٔ علوم مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر سیرگئی دانیلوف نے کہا، "ان کے پاس فوجیوں، پیسے اور گاڑیوں کی کمی ہے، اور انہوں نے ]بیرونِ ملک سے[ اپنے یونٹس کے انخلاء کا آغاز کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "نجی عسکری کمپنی (پی ایم سی) ویگنر گروپ، افریقہ سے ان کے بے رحم فوجیوں کو بھی واپس بلایا جا رہا ہے۔ اب وہ بخموت کے قریب لڑ رہے ہیں۔"

دانیلوف نے کہا، "اگر یوکرین کے خلاف جارحیت اور یوکرین کی غیر متوقع مزاحمت نہ ہوتی تو روسی شام کو نہ چھوڑتے۔"

"اور دیکھیں کیا ہوا: یوکرین سے قبل، عرب ممالک کی اسٹیبلشمنٹ روس کو ایسے ملک کے طور پر دیکھتی تھی جس سے الحاق کیا جا سکے، لیکن اب اس سے متضاد ہو رہا ہے۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی حد سے زیادہ خوداعتمادی اس کی ناکامیوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

لیوس نے کہا، "یہاں تک کہ روسی سفارت کاروں یا ماہرین سے عمومی بات چیت" بھی ان کے اپنے علم اور تربیت سے متعلق ان کی بلند آراء کی قلعی کھول دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ خود پسندی اور "اس کے ساتھ ساتھ روسی دنیا کا استثنیٰ ایک خاص قسم کی نابینائی پیدا کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب جنگی حکمتِ عملی کا معاملہ ہو۔ اور یوکرین کے معاملہ میں تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔"

دو مختلف معرکے

یوکرین کے قومی ادارۂ تضویری علوم کے مرکز برائے خارجی حکمتِ عملی کے ڈائریکٹر ماکسئیم پالامارچُک نے کہا، "شامی اور یوکرینی تنازعات بڑی حد تک ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔"

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، "]2014 میں[ کریمیا کو اپنے ساتھ ملانے کے فیصلے پر جو عوامل اثرانداز ہوئے ان میں سے ایک بڑا عامل یہ تھا کہ کریمیا پر قبضہ کیے بغیر روس شام میں اپنی افواج کی رسد فراہم نہیں کر سکتا تھا۔"

پالامارچُک نے کہا، "لیکن اہم ترین یہ امر ہے کہ روسیوں کے تناظر سے شام ایک ایسا آپریشن تھا جس نے ان کے قائدین کو مزید مہم جو بنا دیا۔ انہیں امۤید تھی کہ مسلح افواج کو استعمال کر کے مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کریملن کی جانب سے یوکرین کی جارحیت کی قیادت کرنے والے جنرل سیرگی سرووکن کے اندازے غلط ہو گئے، ان کا خیال تھا کہ جو شام میں کارگر ہے وہ یوکرین میں بھی کارگر ہے۔

لیوس نے کہا، "سرووکن کا خیال تھا کہ چونکہ فضائی دہشت شام میں کارگر رہی، جب انہوں نے انسان دوست بنیادی ڈھانچے اور اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اورحقیقت میں بموں کے ذریعے عوام کا پیچھا کیا اور انہیں سرِ تسلیم خم کرنے کے لیے مزاکرات پر مجبور کر دیا، لہٰذا یہ یوکرین میں بھی کارگر ہو گی۔"

"لیکن یہ ایک سادہ سی وجہ کی بنا پر کارگر نہ ہوئی: صورت ہائے حال مختلف ہیں"

انہوں نے کہا، "پہلے یوکرین کا مضبوط فضائی دفاع اور میزائل دفاع۔ اور پھر مزاحمت کے لیے یوکرین کی جنگی تیاری، جس کو روسی اس وجہ سے بالکل بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھ رہے کہ یوکرین ایک غیر ریاستی کردار ہے۔"

انہوں نے کہا، "اور آخر میں، کسی مقام پر، فضائی دفاع کو مستحکم کرنے میں حقیقی طور پر مؤثر مغربی معاونت"، انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان حقائق کی روشنی میں روس کو اپنی استعداد کی از سرِ نو تخمینہ کاری کرنی چاہیئے۔

'روس کا طریقِ جنگ'

اب کریملن جس پر انحصار کر سکتا ہے وہ ایک جنگی مجرم کا درجہ ہے۔

بین الاقوامی رپورٹس میں شام میں روسیوں کی جانب سے شہریوں کے خلاف جنگی جرائم ریکارڈ کیے گئے ہیں، اور اب یوکرینی حکام اسی امر کے شواہد جمع کر رہے ہیں۔

شامی عرب جمہوریہ پر ایک آزادانہ بین الاقوامی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں روسی ہوائی جہازوں کی جانب سے "ڈبل ٹیپ" فضائی حملے بیان کیے گئے، مثال کے طور پر ایک ابتدائی حملے پر ردِّ عمل دینے والے ریسکیو اہلکاروں کو ایک دوسرے حملے سے نشانہ بنایا گیا۔

یوکرین پر حملے سے قبل، روس جنگی اصولوں کی اس قسم کی خلاف ورزیوں سے بچ نکلتا۔

پالامارچُک نے کہا، "دہشت اور جنگی قوانین اور روایات کی عدم پاسداری – یہ روسی طریقِ جنگ ہے۔ جنگ مسلط کرنے کا ایک ایسا طریقہ جو طویل عرصہ سے نہیں بدلا۔"

انہوں نے کہا، "لیکن کوئی سزا نہیں ہے۔ نہ تو کسی کو شام کے لیے سزا نہیں دی گئی، اور نہ 92 میں مالدووا میں جنگی جرائم کے لیے۔ نہ ہی 92 اور 93 میں جارجیا اور دوبارہ 2008 میں جارجیا کے لیے کسی کو سزا دی گئی۔"

انہوں نے کہا، "ظاہر ہے ان میں سے کوئی بھی روسی فوج میں عمومی اخلاقی ضوابط کی تشکیل کے لیے کردار ادا نہیں کر سکتا۔ وہ شہریوں کے خلاف دہشت سے مانوس ہیں۔"

دانیلوف نے کہا، "اب روس کو ہر جرم کی سزا ملے گی۔ یہ متضاد ہے۔ معاملات اب اس حد تک چلے گئے ہیں کہ یہ بس یوں ہی ختم نہیں ہوں گے۔"

مشرقِ وسطیٰ میں روس کے سابق اتحادی اب ممکنہ حد تک خود کو ایک ایسے ملک سے الگ کرنا چاہتے ہیں جو بڑے پیمانے پر جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ کوئی بھی اس "سپر پاور" حیثیت کی بات نہیں کر رہا جسے کریملن بری طرح حاصل کرنا چاہتا تھا۔

دانیلوف نے کہا، "عرب ممالک میں لوگ جانتے ہیں کہ روس اور یوکرین کے مابین جنگ ہمارے وقت کا کلیدی تنازع ہے۔"

"یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو عالمی سیکیورٹی کے ڈھانچے کو متاثر کر سکتا ہے، اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کہاں شرکت کرنی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان فارورڈ پاکستان کی کسی خبر کے بغیر ہے۔ اس ویب سائٹ کو کیا ہوا ہے؟

جواب