جرم و انصاف

یوکرین میں پسپائی اختیار کرنے والی روسی فورسز اجتماعی قبریں، گلیوں میں بکھری لاشیں چھوڑ کر جا رہی ہیں

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک شخص کی لاش، جس کی کلائیاں اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھی ہوئی ہیں، 2 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں، بوچا کی ایک سڑک پر پڑی ہے۔ یوکرین کی فوج کی طرف سے بوچا کو روسی فوجیوں سے واپس لینے کے بعد، 2 اپریل کو ایک ہی گلی میں شہری کپڑوں میں کم از کم 20 مردوں کی لاشیں ملی تھیں۔ [رونالڈو سکیمڈٹ/اے ایف پی]

ایک شخص کی لاش، جس کی کلائیاں اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھی ہوئی ہیں، 2 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں، بوچا کی ایک سڑک پر پڑی ہے۔ یوکرین کی فوج کی طرف سے بوچا کو روسی فوجیوں سے واپس لینے کے بعد، 2 اپریل کو ایک ہی گلی میں شہری کپڑوں میں کم از کم 20 مردوں کی لاشیں ملی تھیں۔ [رونالڈو سکیمڈٹ/اے ایف پی]

کیف -- پیر (4 اپریل) کو، عالمی غم و غصہ میں اس وقت اضافہ ہوا جب روسی فوجیوں کی طرف سے کیف کے دارالحکومت کے ارد گرد کے علاقوں سے پسپائی کے بعد، ایسے مزید شواہد سامنے آئے کہ یوکرین میں ان کے مظالم کس حد تک پہنچ گئے تھے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں گلیوں میں جمع مردوں کو دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں کھودنے پر مجبور کیا گیا تھا، جن میں سے کچھ ایسے تھے جن کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایسے مناظر، جنہوں نے روس کی طرف سے کیے جانے والے حملے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد، پوری دنیا کو صدمے سے دوچار کیا ہے۔

روس کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کے باوجود، مذمت انتہائی تیزی سے کی گئی اور عالمی رہنماؤں، نیٹو اور اقوام متحدہ (یو این) نے کیف کے شمال مغرب میں، بوچا اور دیگر جگہوں پر شہریوں کو قتل کرنے کے واقعات کی اطلاعات پر نفرت کا اظہار کیا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار کو اپنے رات کے ویڈیو پیغام میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ "ہماری سرزمین پر مرتکز برائی آ گئی ہے۔"

کیف کے شمال مغرب میں واقع بوچا قصبے میں، 3 اپریل کو ایک چرچ کے پیچھے اجتماعی قبر دکھائی دے رہی ہے۔ اجتماعی قبروں کی دریافت اور کیف کے قریب شہریوں کو 'پھانسی' دیے جانے کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد، یوکرین اور مغربی ممالک نے اتوار کو روسی فوجیوں پر جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے۔ [سرگئی سپرنسکی/اے ایف پی]

کیف کے شمال مغرب میں واقع بوچا قصبے میں، 3 اپریل کو ایک چرچ کے پیچھے اجتماعی قبر دکھائی دے رہی ہے۔ اجتماعی قبروں کی دریافت اور کیف کے قریب شہریوں کو 'پھانسی' دیے جانے کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد، یوکرین اور مغربی ممالک نے اتوار کو روسی فوجیوں پر جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے۔ [سرگئی سپرنسکی/اے ایف پی]

3 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں واقعہ بوچا قصبے میں، ایک اجتماعی قبر کے قریب جمع ہونے والے سوگوار، ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ [سرگئی سپرنسکی/اے ایف پی]

3 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں واقعہ بوچا قصبے میں، ایک اجتماعی قبر کے قریب جمع ہونے والے سوگوار، ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ [سرگئی سپرنسکی/اے ایف پی]

اپنی تقریر کو روسی زبان میں بدلتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ: "میں چاہتا ہوں کہ ہر روسی فوجی کی ماں بوچا، ارپین، ہوسٹومیل میں مارے گئے لوگوں کی لاشیں دیکھے۔"

"میں چاہتا ہوں کہ روسی فیڈریشن کے تمام راہنماء دیکھیں کہ ان کے احکامات پر کیسے عمل درآمد کیا گیا ہے"۔

11 مارچ کو ایک نیوز کانفرنس میں، روسی جنگی قیدیوں (پی او ڈبلیو ایس) نے تصدیق کی کہ کریملن، یوکرین پر اپنے حملے کے ایک حصے کے طور پر، جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا رہا ہے۔

یوکرین کی افواج کی طرف سے پکڑے گئے روسی فضائیہ کے تین اہلکاروں نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہیں توپ کے ایندھن کی طرح جنگ میں پھینکا گیا اور انہیں جان بوجھ کر شہریوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا۔

زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے دارالحکومت کے ارد گرد کے اُن علاقوں میں ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ادارہ تشکیل دیا ہے، جہاں سے روسی فوجی واپس جا چکے ہیں کیونکہ ماسکو اپنی توانائیاں جنوب مشرقی یوکرین پر مرکوز کر رہا ہے۔

ابھی ہلاکتوں کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے لیکن یوکرین کی پراسیکیوٹر جنرل ایرینا وینڈیکٹووا نے کہا کہ اب تک عام شہریوں کی 410 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں۔

اور بوچا کے میئر اناتولی فیڈورک نے اے ایف پی کو بتایا کہ 280 لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن گیا تھا کیونکہ ان کو فائرنگ کی حد کے اندر موجود قبرستانوں میں دفن کرنا ناممکن تھا۔

سیٹلائٹ سے تصویریں لینے والے ادارے میکسار نے ایسی تصاویر جاری کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس میں قصبے کے ایک چرچ کی زمین پر ایک اجتماعی قبر دکھائی دے رہی ہے۔

بلدیاتی کارکن سرحی کپلیچنائے نے اے ایف پی کو بتایا کہ روسی فوجیوں نے ابتدائی طور پر، بوچا میں رہائشیوں کو، مردے دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

"انہوں نے ایسا اس وقت کہا جب اتنی سردی تھی کہ انہیں وہاں چھوڑ دیا جاتا"۔

انہوں نے کہا کہ آخرکار، وہ لاشیں نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ "ہم نے ٹریکٹر کے ساتھ ایک اجتماعی قبر کھودی اور سب کو دفنا دیا"۔

قصبے میں اے ایف پی کے اخباری نمائندوں نےایک واحد سڑک پر بکھری ہوئی کم از کم 20 لاشیں دیکھیں جو عام شہری کپڑوں میں تھیں۔

جنگی جرائم

یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے روس پر "جان بوجھ کر قتلِ عام" کرنے کا الزام لگایا جب کہ زیلنسکی کے ترجمان، سرگی نکیفوروف نے کہا کہ بوچا میں ہونے والی ہلاکتیں "بالکل جنگی جرائم کی طرح نظر آتی ہیں"۔

روس کی وزارت دفاع نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بوچا میں "ایک بھی مقامی باشندے" کو تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اس نے کیف پر مغربی میڈیا کے لیے "ایک اور پیشکش" میں لاشوں کی جعلی تصاویر بنانے کا الزام لگایا۔

لیکن روس کی شام اور چیچنیا میں، شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے -- بشمول ہسپتالوں -- پر جان بوجھ کر حملے کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے۔

عالمی حقوق کے نگراں ادارے کے سیکرٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ نے مارچ میں اے ایف پی کو بتایا کہ "یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کا اعادہ ہے جو ہم نے شام میں دیکھاتھا"۔

یوکرین اور شام دونوں میں، روسی افواج نے معمولاً ہسپتالوں پر بمباری کی اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے پیر کو بوچا میں لاشوں کی تصاویر پر ہیبت کا اظہار کیا اور ممکنہ جنگی جرائم پر خبردار کیا۔

ان ہلاکتوں نے روس کے خلاف نئے اقدامات اٹھائے جانے کے مطالبات کو بڑھا دیا ہے۔

پیر کے روز، یورپی یونین (ای یو) کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ بلاک فوری طور پر، پابندیوں کے ایک نئے سلسلے پر بات کر رہا ہے۔

بوریل نے یوکرین میں ہونے والے مبینہ مظالم کے ثبوت جمع کرنے میں، یورپی یونین کی طرف سے مدد کرنے کی پیشکش بھی کی۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ وہ نئی پابندیوں کے حق میں ہیں۔

میکرون نے فرانس انٹر براڈکاسٹر کو بتایا کہ "جنگی جرائم کے بہت واضح اشارے ہیں۔ یہ روسی فوج تھی جو بوچا میں تھی۔"

انہوں نے کہا کہ نئے اقدامات تیل اور کوئلے کی صنعتوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ نئی پابندیوں کا فیصلہ "آنے والے دنوں میں" کیا جائے گا۔ ان کے وزیر دفاع نے گیس کی درآمدات کے خاتمے کے امکان کا اشارہ دیا۔

شولز نے کہا کہ "[روسی] صدر [ولادیمیر] پوٹن اور ان کے حامی اس کے نتائج کو محسوس کریں گے۔"

پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نے پیر کو، ان واقعات کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے "نسل کشی" قرار دیا۔

اور ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ ان کا ملک "انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم کے ان مبینہ واقعات سے نمٹنے کے لیے سب کچھ کرے گا اور اسے نسل کشی بھی کیوں نہ کہا جائے"۔

پیر کو پولینڈ کے دورے کے دوران، جاپانی وزیر خارجہ یوشیماسا حیاشی نے بھی کیف کے قریب شہریوں کے خلاف "غیر معمولی ظالمانہ" تشدد کی مذمت کی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500