سلامتی

روس کی فوجی ناکامیاں وسط ایشیاء، مشرقِ وسطیٰ میں اس کے شراکت داروں کے لیے تشویشناک اشارے

از پاکستان فارورڈ

روس کے ہنگامی عملے نے گزشتہ 18 اکتوبر کو روس کے شہر ییسک کے رہائشی علاقے میں ایک ایس یو-34 ملٹری جیٹ کے ملبے کو حادثے کی جگہ سے ہٹایا۔ روسی حکام نے کہا کہ ممکنہ طور پر یہ حادثہ 'تکنیکی خرابی' کی وجہ سے ہوا ہے۔[سٹرنگر/اے ایف پی]

روس کے ہنگامی عملے نے گزشتہ 18 اکتوبر کو روس کے شہر ییسک کے رہائشی علاقے میں ایک ایس یو-34 ملٹری جیٹ کے ملبے کو حادثے کی جگہ سے ہٹایا۔ روسی حکام نے کہا کہ ممکنہ طور پر یہ حادثہ 'تکنیکی خرابی' کی وجہ سے ہوا ہے۔[سٹرنگر/اے ایف پی]

روس کے یوکرین پر حملے نے کریملن کی وسط ایشیاء میں سلامتی کا ضامن رہنے کی خواہشات پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں اور اس نے مشرقِ وسطیٰ میں شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا ہے۔

جنگ کے نتیجے میں ایک شرمناک شکست ہوئی ہے، جس میں روس کے لیے بڑے پیمانے پر اہلکاروں، مادی اور اقتصادی نقصانات کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور کریملن مجبور ہو گیا ہے کہ وہ شام سے فوجیوں اور وسائل کو دیگر مقامات کے علاوہ یوکرین کی طرف موڑ دے۔

روس نے شام کے رہنماء بشار الاسد کی جانب سے سنہ 2015 میں شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی تھی، اور اس نے ملک میں فوجی، مالی اور انسانی وسائل کی فراہمی جاری رکھی -- تاوقتیکہ روسی افواج یوکرین میں ناکامیوں سے دوچار ہو گئیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس نے فروری میں خبر دی، "حالیہ مہینوں میں، روس نے شام میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کی ہے، علاقے پر قبضہ چھوڑ دیا ہے اور انسانی امداد میں کمی کی ہے"۔

مارچ میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد شام میں اپنے سامان کی تلاش کے دوران مقامی رہائشی ملبے کے درمیان کھڑے ہیں۔ یوکرین میں فوجی شکست کے بعد، روس بڑے پیمانے پر اپنے شراکت داروں کی مدد، حتیٰ کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرنے سے بھی قاصر رہا ہے۔ [بولنٹ کِلک/اے ایف پی]

مارچ میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد شام میں اپنے سامان کی تلاش کے دوران مقامی رہائشی ملبے کے درمیان کھڑے ہیں۔ یوکرین میں فوجی شکست کے بعد، روس بڑے پیمانے پر اپنے شراکت داروں کی مدد، حتیٰ کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرنے سے بھی قاصر رہا ہے۔ [بولنٹ کِلک/اے ایف پی]

1 جنوری کو خیرسن، یوکرین میں روسی میزائل حملے کے بعد ایک شخص بچوں کے تباہ شدہ ہسپتال کے پاس سے گزر رہا ہے۔ فوجی ناکامیوں نے روس کو شہری ڈھانچے کو نشانہ بنانے پر مجبور کر دیا ہے، جن میں سے بہت سے ہسپتال اور صحت کی سہولیات ہیں۔ [دیمیتر دلکوف / اے ایف پی]

1 جنوری کو خیرسن، یوکرین میں روسی میزائل حملے کے بعد ایک شخص بچوں کے تباہ شدہ ہسپتال کے پاس سے گزر رہا ہے۔ فوجی ناکامیوں نے روس کو شہری ڈھانچے کو نشانہ بنانے پر مجبور کر دیا ہے، جن میں سے بہت سے ہسپتال اور صحت کی سہولیات ہیں۔ [دیمیتر دلکوف / اے ایف پی]

اس نے کہا، "تجربہ کار روسی فوجیوں کو بتدریج یوکرین منتقل کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ اناڑی فوجیوں کو شام لایا جا رہا ہے"۔

فروری 2022 میں یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد، ماسکو نے ایس یو-25 لڑاکا طیاروں کا ایک سکواڈرن دوبارہ تعینات کیا، اور انہیں شام سے واپس روس بھیج دیا۔

اسرائیلی سیٹلائٹ امیجنگ کمپنی امیج سیٹ انٹرنیشنل (آئی ایس آئی) کے مطابق، اس کے بعد اگست میں، روس نے شام کی بندرگاہ طرطوس سے ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم ایس-300 کو کریمیا بھیجا۔

29 اگست کو رائٹرز نے خبر دی کہ آئی ایس آئی نے اپریل 2022 میں شمال مغربی شام کے علاقے مسیاف میں ایس-300 طیارہ شکن دستے کی تصاویر حاصل کیں، اور پھر 25 اگست کو وہ جگہ خالی نظر آئی۔

الگ تصاویر میں 12 سے 17 اگست کے درمیان طرطوس میں ایک کھاڑی پر دستے کے اجزاء دکھائے گئے، لیکن 20 اگست تک وہ ختم ہو چکے تھے۔ آئی ایس آئی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں ایک روسی جہاز، سپارٹا دوم میں منتقل کر دیا گیا ہے، جو طرطوس سے بحیرۂ اسود پر روسی بندرگاہ نوووروئسک کے لیے روانہ ہوا تھا۔

کارنیگی نے خبر دی کہ روس نے شام کو دی جانے والی مالی امداد کو بھی عملی طور پر روک دیا ہے، امداد اور انسانی سامان کو یوکرین کے نئے الحاق شدہ علاقوں میں بھیج دیا ہے۔

اس نے کہا، "شام اب بھی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے اور ابھی ایک تباہ کن زلزلے سے گزرا ہے، اس لیے اس کے کلیدی کفیلوں کے تعاون کے بغیر، ملک کی صورت حال خراب ہونا مقدر ہے"۔

افسانے جھوٹ نکلے

لیکن یوکرین کی جنگ سے بھی پہلے، ماسکو خطے میں اپنے شراکت داروں کی مناسب مدد کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔

لندن انڈیپنڈنٹ نے اُسی سال مئی میں رپورٹ کیا تھا کہ فروری 2018 میں، روسی کرائے کے فوجیوں اور ان کے شامی اتحادیوں، جنہوں نے شام کے صوبہ دیرالزور کے ایک اڈے سے ایک چھوٹی امریکی فوج کو ہٹانے کی کوشش کی تھی، نے اس قسم کے مشترکہ ہتھیاروں کے آپریشن کا تجربہ کیا جس میں روس نے کبھی مہارت ہی حاصل نہیں کی۔

انڈیپنڈنٹ نے خبر دی کہ خاشام کی جنگ میں، پینٹاگون نے حملہ آوروں کو ختم کرنے کے لیے "ریپر ڈرون، ایف-22 نظر نہ آنے والے لڑاکا طیارے، ایف-15ای لڑاکا طیارے، بی-52 بمبار، اے سی-130 گن شپ اور اے ایچ-64 اپاچی ہیلی کاپٹر" بھیجے۔

شامی حکومت کے حامی تقریباً 500 جنگجو، جن میں روسی کرائے کے فوجی بھی شامل تھے، جوابی حملے میں 200 سے 300 کے درمیان تعداد میں مارے گئے۔

جنگ میں تقریباً 40 امریکیوں میں سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ روس کے زیر قبضہ کوسٹل ڈیفنس کروز میزائل (سی ڈی سی ایم) بیٹریوں نے گزشتہ برسوں میں نیٹو اتحاد کے حملوں کے دوران اپنے شامی شراکت داروں کی معاونت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

یوکرین کی جنگ نے اس افسانے کو مزید تباہ کر دیا ہے کہ روسی فوجی سازوسامان سب سے بہتر ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن طویل عرصے سے اپنے ملک کے "ناقابلِ تسخیر" ہتھیاروں کی نئی نسل کی ڈینگیں مارتے رہے ہیں۔

اس کے باوجود ان کے دعوے یوکرینی افواج کو پچھلے مہینے ایک قیاس کردہ "ناقابلِ تسخیر" کنزال ہائپرسونک میزائل یا مارچ میں ایس یو-34 چوتھی نسل کے لڑاکا طیارے کو مار گرانے سے نہ روک پائے۔

یوکرینی میزائلوں نے جنگ کے پہلے دو مہینوں کے اندر دو روسی جنگی بحری جہازوں کو بھی ڈبو دیا: 14 اپریل 2022 کو روس کے بحیرۂ اسود کے فلیٹ کا پرچم بردار میزائل کروزر ماسکوا؛ اور 24 مارچ 2022 کو ساراتوف، ایک ایلیگیٹر کلاس ٹینک لینڈنگ جہاز۔

وہ تکنیکی شکستیں مغربی ہتھیاروں سے لیس فوجوں کے بعد ہوئیں، جن میں ترکی اور اسرائیل میں بنائے گئے ہتھیار شامل ہیں، شام، لیبیا اور آذربائیجان میں روسی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے دشمنوں کو باقاعدگی سے مارتے رہے۔

سنہ 2020 میں چھ ہفتے کی جنگ کے دوران، آرمینیا اور ناگورنو کاراباخ سے لیس روسی دستے، جو آذربائیجان میں آرمینیائی حامی علاقے ہیں، کو آذربائیجان کے زیرِ استعمال ترک ڈرونز سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔

وسط ایشیائی باشندوں کے لیے ایک چشم کشا تماشا

وسط ایشیائی باشندوں کے لیے، یوکرین میں روس کی غیر تسلی بخش کارکردگی نے ان کی حفاظت کرنے کی عسکری صلاحیت کو ایک بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

سنہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، روس نے وسط ایشیاء کے "محافظ" کے طور پر رہنے پر اصرار کیا۔ آج تک، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان میں اس کی فوجیں موجود ہیں۔

وہ تینوں ممالک روس کے زیرِ تسلط دفاعی بلاک، اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (سی ایس ٹی او) میں شامل ہیں۔ سی ایس ٹی او کی رکن ریاستی فوجیں معمول کے مطابق مشترکہ مشقیں کرتی ہیں، اور روس ان کو بنیادی ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔

اب روسی فوجی نظریئے اور ٹیکنالوجی کی قدر پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے سے پہلے بھی، وسط ایشیائی عوام کے اپنے شکوک و شبہات تھے۔

آستانہ کے بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار رسلان نذروف نے سنہ 2019 میں کہا، "روس، کو جب بعض مفادات حاصل کرنے ہوتے ہیں، تو وہ امداد کی صورت میں، کرغزستان اور تاجکستان کو بالکل فرسودہ سازوسامان دیتا ہے"۔

نپے تُلے انداز میں انہوں نے کہا، "حقیقی جنگی حالات میں یہ گاڑیاں اور آلات کتنے کارآمد ہوں گے یہ ایک بڑا سوال ہے"۔

ایک سابقہ برطانوی فوجی اور رسک انٹیلیجنس فرم سیبیلین کے منتظمِ اعلیٰ جسٹن کرمپ نے سنہ 2022 میں بزنس انسائیڈر کو بتایا، "ہمیشہ سے کہا جاتا تھا کہ روس کے پاس ایک بڑی، جدید فوج ہے"۔

انہوں نے کہا، "ہمیں پتہ چلا کہ جدید حصہ بہت بڑا نہیں ہے اور بڑا حصہ بہت جدید نہیں ہے۔ اور بڑا حصہ تیزی سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے"۔

روس کے لیے ایک اور مسئلہ: 'دماغی انخلاء'

روس کی اپنے فوجی اور علاقائی اتحادیوں کی حفاظت میں ناکامی بھی یوکرین پر حملے کے بعد ملک کے بے مثال دماغی انخلاء کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔

فوج میں جانے کی عمر کے روسی مردوں کے جبری بھرتی سے فرار، اور خاندانوں اور نوجوان پیشہ ور افراد کے معذور کر دینے والی پابندیوں سے بچنے کے لیے فرار، کے ساتھ ان نمایاں خامیوں کو دور کرنے والی کسی بھی تبدیلی کو لاگو کرنے کی صلاحیت رکھنے والے بہت کم لوگ باقی رہ گئے ہیں۔

آزاد اندازے کے مطابق، فروری 2022 میں کریملن کے یوکرین پر حملے کے بعد سے کم از کم 500,000 اور 10 لاکھ تک روسیوں -- جس میں اعلیٰ عہدیدار، صنعتکار، مشہور شخصیات اور ہنر مند تکنیکی اہلکار شامل ہیں -- نے ملک چھوڑ دیا ہے۔

گزشتہ ستمبر میں یہ اخراج عروج پر پہنچ گیا جب کریملن نے 300,000 مردوں کو بھرتی کرنے کا حکم دیا تھا، جس کی وجہ سے قازقستان، جارجیا اور منگولیا جیسے ممالک کے ساتھ روسی سرحدوں پر خوف و ہراس سے ٹریفک جام ہو گیا جو اب بھی روسی شہریوں کو بغیر کسی پابندی کے داخل ہونے دیتے ہیں۔

انجینئروں اور سائنس دانوں کے نقصان سے روس کی اسلحہ سازی کی صنعت کو مزید نقصان پہنچے گا، جو پہلے ہی یوکرین میں روسی ہتھیاروں کی ناقص کارکردگی اور مغرب کی جانب سے پابندیاں لگنے کے خطرے سے متعلق ممکنہ خریداروں کی ہچکچاہٹ سے متاثر ہے۔

شہری اہداف پر حملوں کا سہارا لینا

اپنے فوجی اور علاقائی اتحادیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام، روس نے سیاسی فائدے کے لیے شہروں، شہریوں اور اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کا سہارا لیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق مارچ 2022 شہریوں کے لیے جنگ کا مہلک ترین مہینہ تھا۔ یوکرینی حکام نے اس ماہ کہا کہ اپارٹمنٹ بلاکوں اور عوامی عمارتوں پر روسی راکٹ اور میزائل حملوں میں کم از کم 500 شہری مارے گئے۔

پینٹاگون کے ایک اہلکار نے گزشتہ اکتوبر میں کہا، "ہمارا اندازہ ہے کہ روس نے جان بوجھ کر شہریوں کے بنیادی ڈھانچے اور غیر فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو بلاوجہ نقصان پہنچانا اور یوکرینی آبادی میں دہشت پھیلانے کی کوشش کرنا ہے"۔

اس حکمتِ عملی کی مثالیں روزمرہ کا واقعہ ہیں۔

مثال کے طور پر، 13 جون کو یوکرین کے شہر کریوی ری میں ایک پانچ منزلہ اپارٹمنٹ کی عمارت سمیت بنیادی ڈھانچے پر رات کے وقت روسی میزائل حملوں میں کم از کم چھ شہری ہلاک ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ چھ میزائلوں نے پانچ شہری مقامات کو نشانہ بنایا تھا، اور دو مزید افراد خوراک ذخیرہ کرنے کی ایک عمارت میں مارے گئے تھے جسے نشانہ بنایا گیا تھا۔

شام کی طرح، روسی حملوں نے یوکرین کے ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 30 مئی کو کہا کہ روسی حملے کے آغاز کے بعد سے یوکرین میں نگہداشتِ صحت کے نظام پر 1,000 سے زیادہ حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں، جو کہ کسی بھی دوسری انسانی ہنگامی صورتحال سے زیادہ ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا، "گزشتہ 15 ماہ کی مکمل جنگ کے دوران عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے تصدیق کردہ 1,004 حملوں میں کم از کم 101 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں محکمۂ صحت کے اہلکار اور مریض دونوں شامل ہیں، اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500