سلامتی

یوکرین کی شکست نے 'ناقابلِ تسخیر' روسی ہتھیاروں کا پول کھول دیا

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

یکم اپریل کو، یوکرین پر روسی حملے کے دوران، ایک یوکرینی فوجی خارکیف کے مشرق میں، مالا روگن گاؤں کے باہر جلے ہوئے روسی ٹینک کے ملبے پر کھڑا ہے۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

یکم اپریل کو، یوکرین پر روسی حملے کے دوران، ایک یوکرینی فوجی خارکیف کے مشرق میں، مالا روگن گاؤں کے باہر جلے ہوئے روسی ٹینک کے ملبے پر کھڑا ہے۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

جبکہ یوکرین کی جنگ یہ ثابت کرتی چلی جا رہی ہے کہ روسی فوجیوں کو ناقص رسد، خوراک اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے جیسا کہ حیران کن نقصانات اور ناکامیاں اس کا ثبوت ہیں، جنگ نے اس افسانے کو بھی تباہ کر دیا ہے کہ روسی فوجی سازوسامان اعلیٰ درجے کا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے طویل عرصے سے اپنے ملک کے "ناقابلِ تسخیر" ہتھیاروں کی نئی نسل کی ڈینگیں ماری ہیں۔

سنہ 2018 میں، پیوٹن نے دعویٰ کیا تھا کہ روس نے ایک نیا ہائپرسونک میزائل سسٹم بنایا ہے، ایونگارڈ ہائپرسونک وہیکل، جو آواز کی رفتار سے 20 گنا زیادہ رفتار سے پرواز کر سکتا ہے اور اوپر نیچے آ جا سکتا ہے۔

اسے "مثالی ہتھیار" قرار دیتے ہوئے ، انہوں نے اس سال کے قومی خطاب کے دوران کہا، "یہ چیز اسے کسی بھی قسم کے فضائی اور میزائل دفاع کے لیے بالکل ناقابلِ تسخیر بنا دیتی ہے۔"

8 مئی کو ایک ٹریکٹر یوکرین کے شہر خارکیف کے قریب ایک کھیت میں گرے روسی میزائل کے ایک ٹکڑے کے پاس سے گزر رہا ہے۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

8 مئی کو ایک ٹریکٹر یوکرین کے شہر خارکیف کے قریب ایک کھیت میں گرے روسی میزائل کے ایک ٹکڑے کے پاس سے گزر رہا ہے۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

ابھی پچھلے ہی مہینے، پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ روس نے سرمات بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے -- جو روس کے اگلی نسل کے "ناقابلِ تسخیر" میزائلوں میں سے ایک ہے۔

20 اپریل کو ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے بیان میں پیوٹن نے فوج سے کہا، "یہ حقیقتاً انوکھا ہتھیار ہماری مسلح افواج کی جنگی صلاحیت کو مضبوط کرے گا، بیرونی خطرات سے روس کی حفاظت کو قابلِ اعتماد طور پر یقینی بنائے گا اور جو لوگ جارحانہ بیان بازی کی وجہ سے ہمارے ملک کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں دو بار سوچنے پر مجبور کر دے گا۔"

ایک بیان میں روسی وزارتِ دفاع کا کہنا تھا، "سرمات دنیا میں اہداف کو تباہ کرنے کی طویل ترین رینج کے ساتھ سب سے طاقتور میزائل ہے، جو ہمارے ملک کی تزویراتی جوہری افواج کی جنگی طاقت میں بے پناہ اضافہ کرے گا۔"

مارچ میں روس نے کہا تھا کہ اس نے پہلی بار یوکرین میں ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے کنزہال، ایک اور "ناقابلِ تسخیر" ہائپر سونک میزائل استعمال کیا ہے۔

ماسکو کی 9 مئی کی یومِ فتح کی پریڈ میں روسی عوام اور دنیا کو ملک کی فوجی طاقت کے بارے میں قائل کرنے کی ایک اور کوشش دیکھنے کو ملی، لیکن روسی جنگی طیارے تقریبات سے صریحاً غائب تھے۔

حکام نے انہیں نہ اڑانے کے لیے خراب موسم کو ذمہ دار ٹھہرایا، مگر مبصرین نے دیکھا کہ روسی جنگی جہازوں، پائلٹوں اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے ہتھیاروں نے یوکرین میں انتہائی کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سکڑتی ہوئی رسد

پیوٹن کے دعووں کے برعکس، روسی فوجیوں کو یوکرین میں پرانے اور مرمت شدہ آلات کا سہارا لینا پڑا۔

10 اپریل کو، یوکرین کی وزارتِ دفاع نے ایک ویڈیو دکھائی ہے جس میں بظاہر ایک فوجی کو دکھایا گیا ہے جو یوکرین میں گر کر تباہ ہونے والے اورلان-10 روسی فوجی نگرانی والے ڈرون کو تباہ کر رہا ہے۔

سپاہی نے کہا کہ ڈرون کے اوپر پائپوں پر لپیٹی جانے والی ٹیپ لپیٹی گئی تھی اور اس میں ایک عام ہاتھ میں پکڑنے والا کینن ڈی ایس ایل آر کیمرہ استعمال کیا گیا تھا جس کا مین نیویگیشن نیچے چپکایا ہوا تھا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ حادثاتی طور پر موڈز کو تبدیل نہ کرے۔

سپاہی نے یہ بھی بتایا کہ ڈرون کا فیول ٹینک بظاہر پلاسٹک کی پانی کی بوتل کے اوپر والے حصے اور ڈھکن سے بنایا گیا ہے۔

آئی ٹی وی نیوز نے 23 مارچ کو خبر دی کہ روسی فوجیں کم ہتھیاروں سے لیس ہیں اور تیار نہیں ہیں کی ایک اور علامت کے طور پر، یوکرین کے فوجیوں کو 1978 کی روسی فوج کی پٹیاں ملیں جنہیں میدان جنگ میں ضائع کر دیا تھا۔

کریملن کے بڑیں ہانکنے والے دعووں کو یوکرین میں میدانِ جنگ میں آزمایا جا رہا ہے، اور تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔

امریکی محکمۂ دفاع کے ایک سینئر اہلکار نے 9 مئی کو صحافیوں کو بتایا کہ روسی ہوائی جہاز روزانہ 200-300 پروازیں کرنے کے باوجود یوکرین پر فضائی برتری قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

روس نے اپنے بہت سے کروز میزائل اور مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بھی استعمال کیے ہیں۔ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ روسیوں نے اپنے بہت سے درست طریقے سے چلنے والے ہتھیاروں کو "اڑا دیا" ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ روس نے یوکرین میں اتنے زیادہ میزائل داغے ہیں کہ "ان کے ہاں درست طریقے سے گائڈڈ گولہ بارود کے ذخیرے میں مسائل ہیں اور انہیں تبدیل کرنے میں انہیں پریشانی ہو رہی ہے"۔

2 مئی کو پینٹاگون نے کہا کہ جنگ اپنے تیسرے مہینے میں داخل ہونے کے بعد، روس نے اپنے 2,125 سے زیادہ درست ہتھیار فائر کیے ہیں۔ 9 مئی کو برطانیہ کے وزیرِ دفاع بین والیس نے کہا کہ جنگ کے دوسرے ہفتے کے بعد ہی ان کے استعمال میں تیزی سے کمی آ گئی تھی۔

پینٹاگون کے اہلکار نے کہا کہ بین الاقوامی پابندیوں کا اثر روس کی ہتھیاروں کی صنعت پر بھی پڑ رہا ہے، جسے ماسکو کے خلاف الیکٹرانک پرزوں پر پابندی کی وجہ سے یوکرین میں روسی فوج کے استعمال کردہ گائڈڈ میزائلوں کو تبدیل کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

امریکی انٹیلیجنس کی بنیاد پر، واشنگٹن کا خیال ہے کہ پابندیوں کا -- خاص طور پر الیکٹرانک پرزوں پر -- نے "روسی دفاعی صنعتی اڈے پر اثر ڈالا ہے"۔

اہلکار نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ماریوپول یا خارکیف جیسے بڑے شہر ایسے بے قابو بموں کی زد میں آتے ہیں جو فوجی ہدف اور رہائشی عمارت میں فرق نہیں کرتے۔

اہلکار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مزید برآں، روسی افواج بدستور رسد اور نظم و ضبط کے مسائل کا شکار ہیں، بشمول ان افسران میں جو "حکم ماننے اور منتقل ہونے سے انکار کر رہے ہیں"۔

اہلکار نے کہا کہ روسیوں کو ابھی بھی نقل و حمل کے مسائل درپیش ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں "اپنی افواج کو رسد کی دوبارہ فراہمی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔"

'جدید ٹیکنالوجی'

9 مئی کو والیس نے کہا تھا کہ دیگر مذمت کا سبب بننے والے ثبوتوں میں، گرائے گئے روسی لڑاکا طیارے ابتدائی جی پی ایس ریسیورز کے ساتھ "ڈیش بورڈز پر ٹیپ کیے گئے" ملے ہیں کیونکہ ان کے پہلے سے نصب کردہ نیویگیشن سسٹم بہت خراب ہیں۔

انہوں نے کہا، " ان کے اپنے نظام کے خراب معیار کی وجہ سے ، 'جی پی ایس' ریسیورز کو تباہ شدہ روسی Su-34s کے ڈیش بورڈز پر ٹیپ سے چپکایا گیا ہے تاکہ پائلٹوں کو معلوم ہو کہ وہ کہاں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "نتیجہ یہ ہے کہ جبکہ روس کے پاس بڑی مقدار میں توپ خانہ اور زرہ بکتر ہیں جو وہ پریڈ میں پیش کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن وہ ان سے مشترکہ ہتھیاروں کی چالوں کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں اور صرف بڑے پیمانے پر عدم امتیازی پشتوں کا سہارا لیتے ہیں"۔

Su-34 پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین میں تیار کیا گیا تھا لیکن اب بھی یہ روس کے صف اول کے لڑاکا طیاروں میں سے ایک ہے۔

والیس نے کہا کہ روسی گاڑیوں میں "اکثر 1980 کے عشرے کے یوکرین کے کاغذی نقشے ہوتے ہیں"، انہوں نے مزید کہا کہ فوجی "نقل و حمل والے ٹرکوں پر عارضی تحفظ کے طور پر صنوبر کی لکڑی کے ٹکڑے استعمال کر رہے تھے" اور اپنے ٹینکوں کے ساتھ "اوور ہیڈ 'کوپ کیجز' کو منسلک کر رہے تھے۔

انسائیڈر نے 26 مارچ کو خبر دی کہ نام نہاد "کوپ کیجز" ٹینک شکن ہتھیاروں کے خلاف دفاع کے لیے ہوتے ہیں جو گاڑی کے بالائی حصے پر حملہ کرتے ہیں، جہاں بکتر سب سے پتلا ہوتا ہے۔

ایک سابق فوجی اور خطرات کی انٹیلیجنس فرم سیبیلین کے سی ای او، جسٹن کرمپ نے کہا، "خیال یہ ہے کہ اگر آپ بزوکا یا پینزرفاسٹ، جو کہ جرمن ہے، چلاتے ہیں، تو وہ جلد ہی چل جاتے ہیں اور اس لیے وہ خود ٹینک سے نہیں ٹکراتے ہیں۔ وہ مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے ایک طرح سے غلط فاصلے پر اپنی توانائی ختم کر دیتے ہیں۔"

حقیقت میں، کیجز یوکرینیوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے جدید ٹینک شکن ہتھیاروں، جیسے جیولین اور این ایل اے ڈبلیو، یا اگلی نسل کے ہلکے ٹینک شکن ہتھیاروں کے خلاف بڑی حد تک غیر موثر ہیں۔

کرمپ نے کہا، "وہ انہیں ہتھیاروں کے خلاف نفسیاتی تحفظ فراہم کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں، وہ بہت کم کارآمد ہیں"۔

ہتھیاروں سے باخبر رہنے والی اوپن سورس سائٹ اوریکس کے مطابق، روس اب تک یوکرین میں کم از کم 270 ٹینک تباہ کروا چکا ہے -- جو اس کی متوقع فعال قوت کا تقریباً 10 فیصد ہے۔

کرمپ کے مطابق، روسی فوج بڑے پیمانے پر سوویت دور کے T-72 ٹینک استعمال کرتی ہے جو کہ سنہ 1970 کے آس پاس کے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہمیشہ یہی کہا جاتا تھا کہ روس کے پاس بڑی، جدید فوج ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ جدید حصہ بہت بڑا نہیں ہے اور بڑا حصہ بہت جدید نہیں ہے۔ اور بڑا حصہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500