ٹیکنالوجی

ایران کریملن کے پروپیگنڈے کا شکار، بدنام روسی لڑاکا طیارہ حاصل کرنے کے لیے تیار

از پاکستان فارورڈ

اُڑنے سے پہلے رن وے پر ایک روسی ایس یو-35 دیکھا جا سکتا ہے۔ [فائل]

اُڑنے سے پہلے رن وے پر ایک روسی ایس یو-35 دیکھا جا سکتا ہے۔ [فائل]

آنے والے مہینوں میں، ایران کو بہت سے ایس یو-35 روسی لڑاکا طیارے ملیں گے، جنہیں کریملن نے اعلیٰ ترین ہتھیاروں کے طور پر پیش کیا ہے لیکن وسیع پیمانے پر ہوابازی کے ماہرین انہیں چوتھی نسل کے دیگر طیاروں کے مقابلے میں کمتر سمجھتے ہیں۔

سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ تسنیم نیوز نے 15 جنوری کو خبر دی کہ روس نئے شمسی سال جو کہ 21 مارچ سے شروع ہونے والا ہے، کے شروع میں ایران کو سخوئی لڑاکا طیارے فراہم کرے گا۔

میڈیا آؤٹ لیٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، پارلیمنٹ میں ایران کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی کمیٹیوں کے رکن شہریار حیدری نے اس آرڈر کی تصدیق کی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لڑاکا طیاروں کا آرڈر دیا گیا ہے یا انہیں کب خریدا گیا۔

روسی لڑاکا طیاروں کے لیے اس طرح کے سودے کے بارے میں طویل عرصے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن گزشتہ سال ستمبر میں سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر، اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [الیگزینڈر ڈیمیانچک/اسپوتنک/اے ایف پی]

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن گزشتہ سال ستمبر میں سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے موقع پر، اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [الیگزینڈر ڈیمیانچک/اسپوتنک/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے گزشتہ فروری میں یوکرین پر حملہ کیے جانے سے پہلے، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جنوری 2022 میں ماسکو میں ان سے ملاقات کی تھی تاکہ "طویل مدتی تعاون" پر بات چیت کی جا سکے۔

اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات کا سرکاری طور پر اعلان ہونا ابھی باقی ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں فریقوں نے 20 سالہ، 10 بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت روس ایران کو 24 ایس یو -35 سُپر فلانکر لڑاکا طیارے، دو جدید ایس- 400 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم اور ایک فوجی سیٹلائٹ فراہم کرے گا۔ یہ خبر فوربس نے 30 دسمبر کو دی تھی۔

یہ سب، ایسے بڑھتے ہوئے شواہد کے دوران سامنے آیا ہے جن کے مطابق، ایران اور روس کے درمیان فوجی تعلقات مخدوش ہو گئے ہیں جس میں تہران کی طرف سے ماسکو کو یوکرین میں استعمال کے لیے بڑی مقدار میں خودکش ڈرون فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

بڑھا چڑھا کر پیش کردہ

ہوابازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس یو -35 روس کا جدید ترین لڑاکا طیارہ ہے اور اس میں متعدد جدید صلاحیتیں موجود ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جیٹ بنانے والی کمپنی اور کریملن سے منسلک ادارے، جو اس کے بارے میں معلومات پھیلا رہے ہیں، بڑے پیمانے پر آپس میں مجتمع ہو گئے ہیں کہ کس طرح ایس یو -35 دوسرے جدید لڑاکا طیاروں کے مقابلے پر پورا اترتا ہے۔

ہوا بازی کے تجزیہ کار ابھیروپ سینگپتا نے کورا پر، امریکی ساختہ اور یورپی متبادل ناموں کا استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ"ایس یو-35 یقینی طور پر روسی فضائیہ میں سب سے زیادہ قابل لڑاکا طیارہ ہے... لیکن یہ کہنا کہ یہ آج کے ایف- 15 ای، ایف/ اے -18ای/ ایف، ٹائفون یا رافیل کی سطح پر ہے، یا ان سے بہت کم 'اعلی' ہے، حقیقت سے انکار کرنے کے برابر ہے۔"

سینگپتا نے ایس یو-35 کے بارے میں کہا کہ "اس کی تشہیر 'عالمی دھڑکن' کے طور پر کی جاتی ہے -- جو حقیقت سے ذرا سا بھی قریب نہیں ہے۔"

"پروپیگنڈے کے ذرا سا نیچے دیکھو تو وہ واقعی ایئر شوز کے علاوہ باہر کہیں بھی بہتر نہیں ہوتے ہیں۔"

ہوا بازی کے تجزیہ کار ڈاریو لیون نے 2020 میں ایک مضمون، جس میں انہوں نے ایسی بہت سی خامیاں تفصیل سے بیان کی تھیں جو کہ حریف مغربی طیاروں کو متاثر نہیں کرتی ہیں، میں لکھا تھا "ایس یو-35 نے ایسے سب سے زیادہ ++4 نسل کے لڑاکا طیارے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس کی سب سے زیادہ خواہ مخواہ کی تعریف کی گئی ہے"۔

اس سے تین سال پہلے، لیون نے روسی طیاروں کی خریداری سے متعلق دیگر مسائل کو تفصیل سے بتایا تھا۔

لیون نے ایس یو-35 کے بارے میں 2017 کے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ "روسی جیٹ طیارے اپنی قابلِ بھروسہ ہونے کی صلاحیت کے لیے قطعی طور پر مشہور نہیں ہیں اور اگر اس کے ساتھ ناقص تربیت یافتہ دیکھ بھال کے عملے اور اسپیئر پارٹس کی کمی کو شامل کر لیا جائے توکوئی بے تُکی سی تیسری دنیا کی طاقت، زیادہ تر مکمل طور پر ایک آپریشنل جیٹ بنانے کے قابل نہیں رہتی ہے۔"

"مزید برآں، روس اور چین کے علاوہ، کسی ممکنہ مخالف کے پاس اے ڈبلیو اے سی ایس [ایئر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم] یا مکمل گراؤنڈ کنٹرولڈ انٹرسیپٹ صلاحیتوں -- جو دشمن کو مزید روکتی ہیں، کے ہونے کا امکان نہیں ہے۔"

ٹریک ریکارڈ کی شیخیاں

پوٹن اور ان کی وزارت دفاع کی روس کے جدید مواد پر فخر کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، یہاں تک کہ ان کا کہنا ہے کہ اُن اس کے پاس "ناقابل تسخیر" ہتھیاروں کی نئی نسل موجود ہے۔

مثال کے طور پر، 2018 میں، پوٹن نے دعویٰ کیا تھا کہ روس نے ایک نیا ہائپر سونک میزائل سسٹم، ایونگارڈ ہائپرسونک سواری بنائی ہے، جو آواز کی رفتار سے 20 گنا زیادہ پرواز کر سکتی ہے۔

انہوں نے اس سال کے ریاستی خطاب کے دوران اسے ایک "مثالی ہتھیار" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ اسے کسی بھی قسم کے فضائی اور میزائل دفاع کے لیے بالکل ناقابل تسخیر بنا دیتا ہے۔"

لیکن جیسا کہ یوکرین کی جنگ نے ثابت کر دیا ہے، روسی فوجی ٹیکنالوجی اور ساز و سامان کے مقابلے میں، میدانِ جنگ میں دوسرے بہت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور روسی افواج نے فرسودہ اور مرمت شدہ آلات استعمال کرنے کا سہارا لیا ہے۔

روسی میزائل ڈیفنس، امریکی ساختہ ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز (ایچ آئی ایم اے آر ایس) کے خلاف بے بس ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے بار بار گولہ بارود کے گوداموں اور کمانڈ سینٹرز کو اڑا دیا ہے۔

پاپولر میکینکس نے گزشتہ ستمبر میں خبر دی تھی کہ "روسی افواج کو، یوکرین کے محافظوں کی جانب سے ٹینک شکن دستی بموں کو آسمان سے گرانے کے لیے استعمال کیے جانے والے چھوٹے جنگی ٹیکٹیکل ڈرون کو گرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"

اس نے کہا کہ "روسی ٹینک جیسے ٹی72- بی3 کا مغربی اینٹی ٹینک ہتھیاروں جیسے جیولین یا این ایل اے ڈبلیو کے خلاف کوئی دفاع نہیں ہے، جو ٹینک کے سب سے بھاری دفاع کو نظرانداز کرتے ہوئے، پتلی برج کی چھت پر حملہ کرتے ہیں"۔

جنگ کے شروع ہونے کے صرف دو ماہ بعد، گزشتہ اپریل میں، روسی بحریہ کے بلیک سی فلیٹ کا پرچم بردار جہاز، گھریلو ساختہ یوکرائنی میزائلوں کا نشانہ بن گیا تھا۔

پاپولر میکینکس نے گزشتہ ستمبر میں اپنی خبر میں بتایا تھا کہ "روسی ٹینک، بحری جہاز اور بکتر بند گاڑیاں کئی مہینوں سے دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر باقاعدگی سے پھٹ رہی ہیں، جس سے وہ غیر متاثر کن سامان بن رہی ہیں۔"

سودوں سے پیچھے ہٹنا

حال ہی میں متعدد حکومتوں نے صلاحیتوں اور اسپیئر پارٹس کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے کریملن کے ساتھ ایس یو-35 کے سودوں سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیے ہیں۔

جیسا کہ گزشتہ سال کے اوائل میں خبر دی گئی تھی کہ مصر، الجزائر اور انڈونیشیا سبھی نے ایس یو -35 ایس کے حصول کو مسترد کر دیا ہے۔

ذرائع نے جنوری 2022 میں ڈیفینس نامی بلاگ کو بتایا کہ "روسی دفاعی صنعت نے اپنے ایس یو- 35 لڑاکا طیاروں کے لیے ایک ساتھ تین بڑے آرڈر کھو دیے ہیں اور اس کی وجہ صف بند اسکین ریڈار اور ایونکس کو تبدیل کرنے میں ناکامی ہے جو پہلے کئی یورپی ممالک اور اسرائیل سے درآمد کیے جاتے تھے۔"

اسی مضمون کے مطابق ایران نے روس کے لیے ایک مفید کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا جب ان تینوں صارفین نے اپنے آرڈر منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈیفنس بلاگ کے مطابق، "روس کے ہتھیاروں کے اہم برآمد کنندہ روزو بورون ایکسپورٹ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا... لیکن بعد میں مہر نیوز ایجنسی نے اطلاع دی کہ روس، ایران کو ایس یو -35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کے لیے تیار ہے"۔

جیسے دام ویسا ہی مال

اگرچہ ایران کے ساتھ معاہدے میں لڑاکا طیاروں کی قیمت کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے، لیکن بڑے دعوے کرنا اور چیزیں سستی فروخت کرنا کریملن کی ایک عام حکمت عملی ہے۔

2021 میں، روس نے اپنے نئے سخوئی اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی نقاب کشائی کی، جسے "چیک میٹ" کا نام دیا گیا ہے۔

دفاعی ٹھیکیدار روسٹیک اور ریاست کے زیر کنٹرول یونائیٹڈ ایئر کرافٹ کارپوریشن (یو اے سی) کے تیار کردہ طیارے کے بارے میں پہلے کچھ تفصیلات سامنے آئی تھیں، لیکن تیارکنندگان نے بے بنیاد دعوے کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جیٹ طیارہ زمین، ہوا یا سمندر پر بیک وقت چھ اہداف پر حملہ کر سکتا ہے، یہاں تک کہ "مضبوط الیکٹرانک مداخلت کے باوجود"۔

یو اے سی کے جنرل ڈائریکٹر یوری سلیسر نے کہا کہ انہیں اگلے 15 سالوں میں تقریباً 300 آرڈرز کی توقع ہے جو زیادہ تر مشرق وسطیٰ، ایشیا اور لاطینی امریکہ سے ملیں گے۔

سلیسر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فروخت ہونے کی سب سے مضبوط وجہ ان کی قیمت دکھائی دیتی ہے -- امریکی ساختہ امریکی ایف-35 کے مقابلے میں "سات گنا کم ہے"۔

اگرچہ روسی جیٹ دیگر ہمہ گیر اور ثابت شدہ اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں کم مہنگا ہو سکتا ہے، لیکن کریملن کا مبالغہ آرائی کا رجحان -- اور روس کی مہلک فوجی حادثات کی تاریخ -- روسی طیاروں کے معیار پر سوال اٹھاتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500