سلامتی

زیرِ زمین فوجی اڈہ، ڈرون فیکٹری روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاس

پاکستان فارورڈ

8 فروری کو جاری کی جانے والی ایک تصویر میں ایک شخص، ایران میں زیرزمین اڈے کے اندر طیارے کو ڈائریکٹ کر رہا ہے۔ [فائل]

8 فروری کو جاری کی جانے والی ایک تصویر میں ایک شخص، ایران میں زیرزمین اڈے کے اندر طیارے کو ڈائریکٹ کر رہا ہے۔ [فائل]

بہت دھوم دھام لیکن بہت تھوڑی تفصیل کے ساتھ، ایران کی ارتیش ایئر فورس نے گزشتہ ہفتے ایک نامعلوم مقام پر موجود ایک نئی زیرِ زمین بیس کی نقاب کشائی کی جو زمین کے نیچے"سینکڑوں میٹر" تک پھیلی ہوئی ہے۔

جیسا کہ ایرانی فوجی اعلانات کا رواج رہا ہے، عوام کو فراہم کی جانے والی معلومات میں، صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

سرکاری ذرائع ابلاغ نے 8 فروری کو اعلان کیا کہ "ایگل 44" بیس، جس میں مبینہ طور پر لڑاکا طیارے اور بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں (یو اے ویز)، جنہیں عام طور پر ڈرون کہا جاتا ہے، موجود ہیں جن میں "لڑاکا طیاروں کی ایک بڑی تعداد کو امداد فراہم کرنے کے لیے تمام مطلوبہ سامان موجود ہے۔"

ایرانی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، پہاڑوں میں تعمیر کردہ زیر زمین بیس "دشمنوں کی توقعات سے بہت دور اور دور تک فضائی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے"۔

ایرانی ذرائع ابلاغ میں، ایک ایسے زیرِ زمین اڈے میں رکھے گئے ڈرونز کی تصاویر دکھائی گئی ہیں، جو حال ہی میں پہاڑوں میں دریافت ہوا، جس کی ٹھیک ٹھیک جگہ کا پتہ نہیں بتایا گیا ہے۔ [مشرق]

ایرانی ذرائع ابلاغ میں، ایک ایسے زیرِ زمین اڈے میں رکھے گئے ڈرونز کی تصاویر دکھائی گئی ہیں، جو حال ہی میں پہاڑوں میں دریافت ہوا، جس کی ٹھیک ٹھیک جگہ کا پتہ نہیں بتایا گیا ہے۔ [مشرق]

ذریعہ ابلاغ نے کہا کہ جنگ کے اوقات میں، یہ سہولت اپنی "ایندھن کی کثرت اور گولہ بارود کے ذخیرہ" کی بدولت، مبینہ طور پر "مہینوں تک" آپریشنز کو برقرار رکھنے کے قابل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے تیار کردہ ریڈار سے بچنے والے کروز میزائل یاسین اور غیم، بیس پر موجود لڑاکا طیاروں پر لگائے جا سکتے ہیں۔

کچھ اطلاعات کے مطابق، ایک اور ایرانی میزائل، آصف، بھی ان روسی سخوئی ایس یو - 24 جنگی طیاروں پر لگایا جا سکتا ہے، جو ایگل 44 بیس پر تعینات ہیں۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے جیٹ طیارے بیس پر رکھے گئے ہیں لیکن گزشتہ ماہ، ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ تہران روس سے دو درجن جدید سخوئی ایس - یو 35 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کے قریب ہے۔

ہوابازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس - یو 35 بنانے والی کمپنی اور کریملن سے منسلک ایسے آؤٹ لیٹس جو اس کے بارے میں معلومات پھیلا رہے ہیں، نے اس بات کو بڑے پیمانے پر الجھایا ہے کہ ایس - یو 35 دوسرے جدید لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں اہلیت کے لحاظ سے کیسے ہیں۔

سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ تسنیم کے مطابق، ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے تفصیلات بتائے بغیر، نقاب کشائی سے قبل کہا کہ ایران کے فوجی سازوسامان کے "متعدد گاہک" ہیں۔

باقری، ایگل 44 بیس کے جائے مقام کے بارے میں بھی مبہم تھے، انہوں نے صرف یہ ظاہر کیا کہ یہ "پہاڑوں میں کہیں ہے جہاں کوئی بم اس تک نہیں پہنچ سکتا"۔

ڈرون فیکٹری کے منصوبے

علیحدہ طور پر، ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، تہران اور ماسکو روس میں ایک نئی فیکٹری بنانے کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جو کم از کم 6,000 ایرانی ڈیزائن کردہ ڈرون تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ان کا مقصد یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں انہیں استعمال کرنا ہے۔

ماسکو اور تہران کے درمیان ابھرتے ہوئے فوجی اتحاد کے ایک حصے کے طور پر، ایک اعلیٰ سطحی ایرانی وفد 5 جنوری کو ماسکو سے 965 کلومیٹر مشرق میں واقع یلابوگا قصبے میں ڈرون فیکٹری کی مجوزہ سائٹ کا دورہ کرنے کے لیے روس گیا۔

اس دورے کے ساتھ، وال اسٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے خبر دی ہے کہ فوجی تعاون کے بارے میں روسی-ایرانی بات چیت ٹھوس منصوبوں میں بدل گئی ہے۔

وفد نے اس خالی جگہ کا دورہ کیا، جہاں دونوں ممالک کے رہنما ایک نئی فیکٹری بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو مستقبل میں بڑے پیمانے پر ڈرون تیار کر سکے گی۔

ایرانی وفد کی قیادت بریگیڈیئر جنرل عبداللہ محرابی جو کہ آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس ریسرچ اینڈ سیلف سفیشینسی جہاد کے سربراہ ہیں اور ایران کی قدس ایوی ایشن انڈسٹری کے چیف ایگزیکیٹو قاسم دماوندیان، کر رہے تھے۔

ڈبلیو ایس جے کے مطابق، قدس ایوی ایشن انڈسٹری ایک اہم دفاعی صنعت کار ہے جس کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی ڈرون تیار کرنے اور انہیں بنانے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

امریکی حکام نے ڈبلیو ایس جے کو بتایا کہ روس اور ایران ایک تیز تر ڈرون بنانے کا ارادہ کر رہے ہیں جو یوکرائنی فضائی دفاع کے لیے نئے چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔

یوکرین میں ایرانی میزائل

تہران نے ماسکو کو سینکڑوں ڈرون فراہم کیے ہیں جو اس نے یوکرین میں فوجی اور شہری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے ہیں.

امریکہ کا کہنا ہے کہ ماسکو، ایرانی پائلٹوں کو روسی جیٹ لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت دے رہا ہے، اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ 2023 کے آخر تک انہیں تہران کو بھیجے گا۔

دسمبر میں، وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا تھا کہ ماسکو اور تہران غور کر رہے ہیں کہ آیا روس میں مشترکہ ڈرون پروڈکشن لائن بنائی جائے یا نہیں۔

امریکی اور یوکرائنی حکام نے کہا ہے کہ اب تک، ایران نے روس کو زیادہ تر شاہد- 136 "خودکش ڈرون" فراہم کیے ہیں جن میں معمولی مقدار میں دھماکہ خیز مواد ہوتا ہے جو ڈرون اپنے اہداف سے ٹکرانے پر پھٹ جاتا ہے۔

شاھد - 136 پروپیلر انجنوں کے ساتھ ایک سست حرکت کرنے والا اور اونچی آواز والا ڈرون ہے، جس سے اسے تلاش کرنا اور مار کر گرانا نسبتاً آسان ہے۔

ملک کی فضائیہ کے مطابق، یوکرین نے گزشتہ موسم خزاں میں اس کے آسمانوں پر نمودار ہونے کے بعد سے اب تک، ایرانی ساختہ 540 سے زیادہ ڈرون مار گرائے ہیں۔

اب، حکام نے کہا ہے کہ ایران روس کے ساتھ مل کر ایک نئے انجن کے ساتھ شاھد - 136 ماڈل تیار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ یہ تیز رفتار اور دور تک پرواز کر سکے اور یلابوگا کی نئی فیکٹری میں بہتر ماڈل تیار کرنے کے منصوبہ بنا رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500