سلامتی

روس کا امریکی ڈرون سے 'غیر محتاط' ٹکراؤ ماضی کے رویے کے مطابق ہے

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک ایم کیو-9 ریپر جولائی 2019 میں نیواڈا ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ رینج پر ایک تربیتی مشن پر اڑ رہا ہے۔ [امریکی فضائیہ]

ایک ایم کیو-9 ریپر جولائی 2019 میں نیواڈا ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ رینج پر ایک تربیتی مشن پر اڑ رہا ہے۔ [امریکی فضائیہ]

برسلز، بیلجیئم -- امریکی حکام نے کہا کہ بین الاقوامی فضائی حدود میں روسی پائلٹوں کا "غیر محتاط" اور "غیر پیشہ ورانہ" رویہ، جس کی وجہ سے منگل (14 مارچ) کو امریکی ڈرون گر کر تباہ ہو گیا، ان کی جانب سے ایک بار پھر بین الاقوامی قوانین کی واضح بے توقیری کا اظہار ہے۔

یو ایس یورپی کمان (ای یو کام) نے ایک بیان میں کہا کہ ایک روسی ایس یو-27 جیٹ بحیرۂ اسود کے اوپر ایک امریکی ایم کیو-9 ریپر ڈرون کے پروپیلر سے ٹکرایا، جس سے ریپر کو نیچے پانی میں گرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں اس کا نقصان ہوا۔

بیان میں کہا گیا، "تصادم سے پہلے کئی بار، ایس یو-27 نے ایم کیو-9 پر ایندھن پھینکا اور اس کے سامنے لاپرواہی سے، ماحول کے لحاظ سے غیر مناسب اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں پرواز کی۔"

"یہ واقعہ غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ ہونے کے علاوہ اہلیت کی کمی کا بھی اظہار ہے۔"

امریکی فضائیہ کے جنرل جیمز بی ہیکر کے مطابق جو کہ امریکی فضائیہ یورپ اور فضائی افواج افریقہ کے کمانڈر ہیں۔ ،ایم کیو-9 بغیر پائلٹ کا طیارہ بین الاقوامی فضائی حدود میں معمول کی کارروائیاں کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا، "امریکی اور اتحادیوں کے طیارے بین الاقوامی فضائی حدود میں کام کرنا جاری رکھیں گے، اور ہم روسیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ اور محفوظ طریقے سے کام کریں،" انہوں نے مزید کہا کہ "روسی تقریباً دونوں طیاروں کی تباہی کا سبب بنے۔"

ای یو کام کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، "یہ واقعہ بحیرۂ اسود کے اوپر سمیت بین الاقوامی فضائی حدود میں امریکی اور اتحادی طیاروں کے ساتھ تال میل کے دوران روسی پائلٹوں کی خطرناک کارروائیوں کے نمونے کی پیروی کرتا ہے۔"

"روسی ہوائی عملے کے یہ جارحانہ اقدامات خطرناک ہیں اور غلط اندازوں اور غیر ارادی کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔"

'داؤ کی رقم کو بڑھانا'

کیف نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر یوکرین کے تنازع کو وسیع کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔.

یوکرین کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سکریٹری اولیکسی ڈینیلوف نے بدھ کے روز سوشل میڈیا پر کہا، "امریکی ایم کیو-9 ریپر یو اے وی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ – بحیرۂ اسود کے اوپر روس کی طرف سے اکسایا گیا -- پیوٹن کا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ دوسرے فریقوں کو شامل کرنے کے لیے تنازع کو بڑھانے کے لیے اپنی تیاری کا اشارہ دے رہا ہے"۔

"اس تمام تر حربے کا مقصد ہمیشہ داؤ کی رقم کو بڑھانا ہے۔"

برسلز میں نیٹو کے سفارت کاروں نے کہا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ یہ واقعہ فوری طور پر مزید تصادم کی شکل اختیار کر لے گا۔

ایک مغربی فوجی ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس اور امریکہ کے درمیان سفارتی چینلز کو فعال کر دیا جائے گا۔

ذریعہ نے کہا، "میرے خیال میں، سفارتی چینلز اس کو کم کریں گے۔"

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے منگل کی سہ پہر روسی سفیر کو محکمۂ خارجہ میں طلب کیا اور ماسکو میں امریکی سفیر نے بھی اس واقعے پر "سخت اعتراض" درج کرایا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم اس غیر محفوظ، غیر پیشہ ورانہ مداخلت، جو بغیر پائلٹ کے امریکی طیارے کے گرنے کا سبب بنی، پر اپنے سخت اعتراضات کرنے کے لیے، ایک بار پھر اعلیٰ سطحات پر براہِ راست روسیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔"

پرائس نے مزید کہا کہ یہ واقعہ بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

امریکہ ایم کیو-9 ریپرز کو نگرانی اور حملوں دونوں کے لیے استعمال کرتا ہے، اور اس نے بحیرۂ اسود کے اوپر طویل عرصے سے روسی بحری افواج پر نظر رکھی ہوئی ہے.

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو ایک طیارے کے دوسرے طیارے کے ساتھ بصری یا الیکٹرانک رابطہ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے… کیونکہ بحیرۂ اسود کے اوپر امریکی طیاروں میں روسی طیاروں کی جانب سے مداخلت ہوتی رہتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ لیکن یہ معاملہ اس وجہ سے "قابلِ ذکر ہے کیونکہ یہ بہت غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ تھا، واقعی انتہائی لاپرواہی تھا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کرنے سے پہلے روسیوں کے ساتھ کسی قسم کا چیک ان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسا کرتے ہیں۔"

روس کی وزارت دفاع نے ڈرون کے گرنے کی وجہ بننے سے انکار کیا ہے۔

لاپرواہ اشتعال انگیزیوں کی تاریخ

روسی پائلٹوں کی فضائی حدود میں اشتعال انگیزی کی ایک طویل تاریخ ہے جب سے روس نے سنہ 2015 میں شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی طرف سے مداخلت کی تھی۔

اپریل 2020 میں، دو الگ الگ واقعات میں، روسی ایس یو-35 نے بحیرۂ روم کے اوپر امریکی بحریہ کے پی-8اے کو روکا، جس نے تیز رفتار الٹی حرکتیں کیں اور امریکی نگرانی والے طیارے کے 7.5 میٹر قریب آ گئے۔

بحریہ نے کہا کہ"یہ غیر محفوظ تھیں اور اس سے پائلٹوں اور عملے کی حفاظت خطرے میں پڑ گئی تھی۔"

ایک ماہ بعد، بحریہ نے کہا کہ دو روسی ایس یو-35 طیاروں نے بحیرۂ روم کے اوپر ایک تصادم جو 65 منٹ تک جاری رہا، میں بحریہ کے ایک اور پی-8 اےکو روکا تھا۔

اس نے کہا کہ یہ تصادم "غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ تھا کیونکہ روسی پائلٹ بیک وقت پی-8 اے کے ہر پر کے بالکل قریب آ رہے تھے۔"

پینٹاگون نے اس وقت کہا کہ 12 اور 13 فروری 2022 کو بحیرۂ روم کے اوپر بین الاقوامی فضائی حدود میں "امریکی بحریہ کے تین پی-8 اے طیاروں میں روسی طیاروں کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ مداخلت کی گئی۔"

اس نے کہا، "اگرچہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا، اس طرح کے تعامل کے نتیجے میں غلط اندازے لگ سکتے ہیں اور غلطیاں ہو سکتی ہیں جو زیادہ خطرناک نتائج کا باعث بنتی ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500