سلامتی

تشدد، عصمت دری اور قتل: دنیا بھر میں روس کے زرخریدوں کے حربے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

کریملن کی فلم 'دی ٹورسٹ' جو 2021 میں جاری ہوئی، سے لیا گیا اسکرین شاٹ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو روسی زرخرید فوجی، وسطی افریقی جمہوریہ میں کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

کریملن کی فلم 'دی ٹورسٹ' جو 2021 میں جاری ہوئی، سے لیا گیا اسکرین شاٹ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو روسی زرخرید فوجی، وسطی افریقی جمہوریہ میں کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے منگل (3 مئی) کو کہا کہ کریملن کے حمایت یافتہ، ویگنر کے زرخرید فوجی، وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) میں شہریوں کو قتل کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

ان الزامات نے، ویگنر گروپ اور دیگر نیم فوجی روسی دستوں کا تقریبا ہر اس شورش زدہ علاقے میں تعاقب کیا ہے جہاں انہیں تعینات کیا گیا -- اس میں یوکرین، مالی، لیبیا اور شام شامل ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ "وسطی افریقی جمہوریہ میں فورسز، جن کی شناخت روسیوں کے طور پر کی گئی ہے، نے مبینہ طور پر 2019 سے اب تک، عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا، تشدد کا نشانہ بنایا اور مارا پیٹا ہے۔"

اس میں کہا گیا کہ"متعدد مغربی حکومتوں اور اقوام متحدہ (یو این) کے ماہرین اور خصوصی نمائندوں کو اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں کام کرنے والی روس سے منسلک افواج میں ویگنر گروپ کے ممبران کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے، جو کہ عسکری سیکورٹی کا ایسا نجی روسی ٹھیکہ دار ہے جس کے روسی حکومت سے ظاہری روابط ہیں"۔

ایک شخص کی لاش، جس کی کلائیاں اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھی ہوئی ہیں، 2 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں، بوچا کی ایک سڑک پر پڑی ہے۔ یوکرین کی افواج کی جانب سے، بوچا کو روسی فوجیوں سے واپس لینے کے بعد، ایک ہی گلی میں درجنوں شہریوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ پکڑی گئی مواصلات نے ویگنر کے زرخرید فوجیوں کی جائے وقوعہ پر موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔ [رونالڈو سکیمڈٹ/اے ایف پی]

ایک شخص کی لاش، جس کی کلائیاں اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھی ہوئی ہیں، 2 اپریل کو کیف کے شمال مغرب میں، بوچا کی ایک سڑک پر پڑی ہے۔ یوکرین کی افواج کی جانب سے، بوچا کو روسی فوجیوں سے واپس لینے کے بعد، ایک ہی گلی میں درجنوں شہریوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ پکڑی گئی مواصلات نے ویگنر کے زرخرید فوجیوں کی جائے وقوعہ پر موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔ [رونالڈو سکیمڈٹ/اے ایف پی]

ماسکو کی 'مدد'

سی اے آر میں وہ خانہ جنگی جو 2013 میں شروع ہوئی تھی اور جس نے ایک گرتی ہوئی ریاست کے خلاف متعدد ملیشیاؤں کو کھڑا کیا تھا، حالیہ برسوں میں کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔

لیکن تقریباً ایک سال قبل، لڑائی اس وقت اچانک دوبارہ شروع ہو گئی جب باغیوں نے صدر فوسٹین آرچینج تواڈیرا کا تختہ الٹنے کے لیے حملے کا آغاز کیا۔

صدر کی جانب سے ماسکو سے مدد کی درخواست کیے جانے کے بعد، سینکڑوں نیم فوجی روسی دستوں نے باغیوں کو پیچھے دھکیلنے میں مدد کی، جو اب بھی ملک کے بڑے حصے پر تسلط رکھتے ہیں۔

نجی ملٹری اداروں (پی ایم سیز) کو اکثر "ویگنر گروپ" سے تعلق رکھنے والوں کے طور پر بیان کیا جاتا ہے -- ایک روسی ادارہ جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

روسی تاجر، یوگنی پریگوزن جو کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا ساتھی ہے، کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ویگنر گروپ کو سرمایہ فراہم کرنے والا ہے۔

پریگوزن اور کریملن دونوں نے ہی اس گروپ سے کسی بھی قسم کے تعلقات سے انکار کیا ہے۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس تھنک ٹینک نے ویگنر کو "ماسکو کے انتہائی بُرے طریقے سے خفیہ رکھے جانے والے رازوں میں سے ایک" قرار دیا ہے۔

اس نے کہا کہ اس گروپ کے دو بنیادی مقاصد ہیں: "جب جنگ زدہ علاقوں میں جنگجوؤں کو تعینات کیا جائے تو کریملن کو تردید کرنے کا جواز فراہم کرنا اور "تاثر پذیر ریاستوں کے ساتھ اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیے پہلے سے تیار کردہ صلاحیت" پیش کرنا۔

ایچ آر ڈبلیو کے کرائسس اینڈ کانفلیکٹ ڈویژن کی ڈائریکٹر آئیڈا ساویر نے کہا کہ "وسطی افریقی حکومت کو سیکورٹی کی بین الاقوامی امداد کی درخواست کرنے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن وہ غیر ملکی افواج کو شہریوں کو قتل کرنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں دے سکتی۔"

انہوں نے کہا کہ "قانون کی حکمرانی کے لیے اپنے احترام کا مظاہرہ کرنے کے لیے، اور ان زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے، حکومت کو فوری طور پر روس سے منسلک فورسز سمیت، ایسی تمام قوتوں کے خلاف تحقیقات کرنی چاہیں اور مقدمات چلانے چاہیں، جو قتل، غیر قانونی حراست اور تشدد کی ذمہ دار ہیں۔"

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اس نے سی اے آر اور روسی حکومتوں کو لکھا تھا لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے گزشتہ ماہ سی اے آر میں "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں" کی مذمت کی تھی، جس میں عام شہریوں کا قتل اور ان پر کیا جانے والا جنسی تشدد شامل ہیں، جو نہ صرفہ باغی گروہوں بلکہ فوج اور ان کے روسی اتحادیوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔

بوچا میں قتل عام

ویگنر کے زرخرید فوجیوں کو سب سے پہلے 2014 میں یوکرین میں اس وقت تعینات کیا گیا تھا، جب روس نے کریمیا کو ملحق کیا تھا۔ بعد کے سالوں میں وہ شام، موزمبیق، سوڈان، وینزویلا، لیبیا، سی اے آر، چاڈ اور مالی سمیت دنیا بھر میں تنازعات میں ملوث رہے ہیں۔

ویگنر اب دوبارہ یوکرین میں ہے۔ روس کے 24 فروری کے حملے سے پہلے، ایسی اطلاعات آئی تھیں کہ سینکڑوں روسی زرخرید فوجی افریقہ میں اپنی چوکیاں چھوڑ رہے ہیں اور یوکرین میں جنگ کی تیاری کے لیے، شام جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ایک یورپی اہلکار نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اس وقت ویگنر گروپ اور شام اور لیبیا سے تعلق رکھنے والے تقریبا 20,000 زرخرید فوجی، یوکرین میں ماسکو کی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

روس کی تردید کے باوجود، یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ روسی افواج، بوچا میں مردہ پائے جانے والے شہریوں میں سے اکثریت کی ہلاکت کی ذمہ دار تھیں۔

وحشیانہ قتل کےِ لرزہ خیز مناظر اور روسی فوجیوں کے انخلاء کے بعد، کیف کے نواحی علاقے میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔

یوکرین نے پہلے ہی دن سے، روس کی 64 ویں موٹرائزڈ انفنٹری بریگیڈ پر الزام لگایا تھا جو بوچا میں تعینات تھی۔

یوکرین کے استغاثہ نے 28 اپریل کو کہا کہ وہ جنگی جرائم کے سلسلے میں بریگیڈ کے 10 فوجیوں کے بارے میں تفتیش کر رہے ہیں اور انہیں مطلوب ملزمان قرار دیا ہے۔

پوٹن نے 18 اپریل کو ایک سرکاری حکم نامے پر دستخط کیے جس میں بریگیڈ کی "بڑے پیمانے پر بہادری و ہمت اور استقامت و جرات" کی تعریف کی گئی۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ بریگیڈ کہاں تعینات تھی۔

اے ایف پی کو انٹرویو دینے والی ایک گواہ نے بتایا کہ روسی قبضے کے آغاز میں، اس نے زیادہ تر نوجوان روسی فوجیوں کو دیکھا تھا۔

لیکن اسے یاد ہے کہ چند ہفتوں بعد، بڑی عمر کے "سفاک" فوجی آ گئے تھے۔

اس نے کہا کہ "اس کے بعد قتل عام شروع ہوا"۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ روس کی ایف ایس بی سیکیورٹی ایجنسی کے افسران ہوں۔

جرمن انٹیلی جنس کی طرف سے پکڑی جانی والی مواصلات کے مطابق، ویگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے زرخرید روسی فوجی بھی اس میں ملوث تھے۔

روس کے 'جنگی جرائم'

یوکرین اور شام میں روس کی مداخلت پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو وہ لیبیا، سی اے آر، مالی اور دیگر کے لیے ایک انتباہ فراہم کرتی ہے۔

کئی سالوں سے، کریملن نے سیاسی جفرافیائی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے اپنی مہم کے ایک حصہ کے طور پر، صدر بشار الاسد کی حمایت میں شامی تنازعہ میں جنگجوؤں اور سرمایے کو جھونکا ہے۔

حالیہ برسوں میں شام میں، روسی پی ایم سیزکا اس حد تک سیلاب آ گیا ہے کہ وہ شامی فوج کے کردار کو کمزور کر رہے ہیں۔

ستمبر 2019 کی ایک رپورٹ میں، سیریئن نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس نے کریملن پر 2015 سے اب تک، شام میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران "سینکڑوں جنگی جرائم" کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا۔

15 مارچ، 2021 کو، فرانس، شام اور روس سے تعلق رکھنے والے تین وکالتی گروپوں نے ماسکو میں، ویگنر گروپ کے خلاف، 2017 میں ایک شامی شخص کا سر قلم کرنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر، ایک تاریخی قانونی شکایت درج کرائی، جو ان کے خیال میں "جنگی جرائم" کے مترادف ہے۔

لیبیا میں، ویگنر گروپ کے زرخرید فوجی 2018 سے روس کی حمایت یافتہ لیبیائی نیشنل آرمی کو مضبوط کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں جن کی قیادت طاقتور جنرل خلیفہ حفتر کر رہے ہیں۔

لیبیا کے تیل کے وسیع ذخائر اور بحیرہ روم میں اس کا اہم اسٹریجک مقام ماسکو کے لیے پرکشش ہے، جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔

ویگنر پر لیبیا میں اپنی سب سے بڑی غیر ملکی موجودگی رکھنے کا شبہ بھی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق، دیگر روسی پی ایم سی بھی تنازع میں ملوث ہیں۔

مالی میں، جہاں ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی صدارتی محل کی حفاظت کر رہے ہیں، مورا میں مارچ کے ایک آپریشن پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مالی کی فوج اور ذرائع ابلاغ اور ایچ آر ڈبلیو کے ذریعے انٹرویو کیے گئے عینی شاہدین نے اس آپریشن کو شہریوں کا قتل عام قرار دیا، جس میں مالی کے فوجیوں اور غیر ملکی جنگجوؤں کے ذریعے عصمت دری اور لوٹ مار کی گئی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ روسی تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500