تجزیہ

چین کا اندرونِ ملک پوتن کے لیے ہمدردی کا مظاہرہ، بیرون ملک کریملن کے پروپیگنڈے کو بڑھاوا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

27 مارچ کو لی گئی اس تصویر میں یوکرین سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ ماحولیاتی معلم لیڈیا زہگیر (بائیں) اور تکنیکی کارکن والیریا لیتووکا (دائیں) کو بیجنگ کی ایک کافی شاپ میں یوکرین کے تنازعے کے بارے میں آن لائن مواد پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، چین میں موجود یوکرینی باشندے، ماسکو کی طرف بیجنگ کے جھکاؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ [نول سیلس/اے ایف پی]

27 مارچ کو لی گئی اس تصویر میں یوکرین سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ ماحولیاتی معلم لیڈیا زہگیر (بائیں) اور تکنیکی کارکن والیریا لیتووکا (دائیں) کو بیجنگ کی ایک کافی شاپ میں یوکرین کے تنازعے کے بارے میں آن لائن مواد پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، چین میں موجود یوکرینی باشندے، ماسکو کی طرف بیجنگ کے جھکاؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ [نول سیلس/اے ایف پی]

دنیا کے سامنے، چین اپنے آپ کو یوکرین کی جنگ میں ایک غیرجانبدار تماشائی کے طور پر پیش کرتا ہے -- روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کرتا ہے مگر ایک عالمی اچھوت کو کھلم کھلا حمایت کی پیشکش کرنے میں بھی محتاط رہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بیجنگ، ماسکو کی جانب سے غلط معلومات کی دو طرفہ جنگ لڑ رہا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے جمعرات (14 اپریل) کو اصرار کیا کہ بیجنگ کا موقف "معروضی اور غیر جانبدارانہ" اور "تاریخ کی درست سمت" پر ہے۔

ان کا یہ تبصرہ، امریکہ کی ٹریژری سیکریٹری جینٹ ییلن کی طرف سے خبردار کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے کہ چین، روس کے خلاف مغربی پابندیوں میں حصہ نہ لینے کے اقتصادی نتائج بھگت سکتا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں ملاقات کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ چین نے، 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے، روس کا ساتھ دیا ہے۔ [الیکسی ڈروزینن/ سپوتنک/ اے ایف پی]

روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں ملاقات کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ چین نے، 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے، روس کا ساتھ دیا ہے۔ [الیکسی ڈروزینن/ سپوتنک/ اے ایف پی]

انہوں نے چین سے "اس جنگ کو ختم کرنے میں مدد کرنے" کا مطالبہ کیا اور مزید کہا کہ اگر اس نے جلد عمل نہیں کیا تو بیجنگ "چین کے بارے میں دنیا کے رویے اور مزید اقتصادی انضمام کو قبول کرنے کی خواہش" میں کمی دیکھ سکتا ہے۔

بیجنگ اپنے قریبی اتحادی کی پشت پناہی کرنے اور روس پر عائد پابندیوں کی صریح خلاف ورزیوں سے گریز کرتے ہوئے، مغرب کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کے سفارتی کشمکش پر چل رہا ہے۔

لیکن جب کریملن کے پروپیگنڈے کو مارچ میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یورپ اور دنیا بھر میں روس کے سرکاری نیوز چینلز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو مسدود یا محدود کر دیا گیا تو چینی ریاست کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ نے کریملن کے نکتہ نظر کے لیے ایک طاقتور واسِع پیش کیا۔

اسی دوران، چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) روس کو ایک طویل عرصے سے مغربی حاویّت کے شکار کے طور پر پیش کرتے ہوئے، اس کے لیے اندرونِ ملک ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایک مہم چلا رہی ہے۔

کریملن پروپیگنڈا پر پابندی سے بچ رہا ہے

یوکرین پر روس کے حملے کے کچھ ہی دن بعد، یورپی کمیشن نے روس کے ریاستی ذرائع ابلاغ پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور یوٹیوب سمیت کریملن کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ تک رسائی کو بند یا محدود کر دیا جس میں آر ٹی اور سپٹنک بھی شامل ہیں۔

جس کے نتیجہ میں، ماسکو نے حل تلاش کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

ایک واقعہ میں، آزاد صحافیوں نے کریملن کے حامی خیالات کو آگے بڑھانے کے لیے، ٹک ٹاک کے صاحبانِ اثر کو ادائیگی کرنے کے لیے ایک مربوط اسکیم کا پردہ فاش کیا۔ ایک اور واقعہ میں، ٹریمینٹم اینالیٹکس کے محققین نے، یوکرین کے بارے میں یوٹیوب ویڈیوز کو روس نواز تبصروں کے ساتھ بھرنے والے ٹرولز کے بارے میں دستاویز بندی کی۔ یہ خبر واشنگٹن پوسٹ نے 8 اپریل کو دی۔

دنیا بھر میں روسی سفارت خانوں نے ٹویٹر، یوٹیوب، فیس بک اور ٹیلی گرام پر لاکھوں فالوورز تک غلط معلومات پہنچانے کے لیے اپنے پلیٹ فارمز کو استعمال کیا ہے۔

کم پابندیوں کے باعث، ٹیلیگرام ایک مقبول انتخاب رہا ہے۔ اسرائیل کے غلط معلومات کے تحقیقاتی گروپ فیک رپورٹر کے مطابق، جنگ کے آغاز کے بعد سے، روسی سفارت خانوں نے 65 نئے ٹیلی گرام چینلز بنائے ہیں۔

"حکومتوں اور تکنیکی پلیٹ فارمز کی طرف سے روسی پروپیگنڈے کو سنسر کرنے یا اس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی طرف بڑھنے کے ساتھ، کریملن کے حامی نکتہ نظر کو اب صاحبانِ رسوخ اور پراکسیز، بشمول چینی حکام اور سرکاری ذرائع ابلاغ، کے ذریعے شفاف بنایا جا رہا ہے۔" یہ بات بریٹ شیفر جو کہ سینئر فیلو اور الائنس فار سیکیورنگ ڈیموکریسی جو کہ امریکی جرمن مارشل فنڈ میں رکھی گئی ایک ایسی غیر جانبدارانہ پہلکاری ہے جو چینی اور روسی سرکاری ذرائع ابلاغ پر نظر رکھتی ہے، میں معلومات میں ہیرا پھیری کی ٹیم کے سربراہ ہیں نے بتائی۔

انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ چینی ذرائع ابلاغ کو "ان پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو روسی سرکاری ذرائع ابلاغ پر لگائی گئی ہیں۔"

"اس نے کریملن کو مؤثر طریقے سے پابندیوں سے بچنے کے قابل بنایا ہے جن کا مقصد روسی پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کو محدود کرنا ہے۔"

چینی واسِع

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی ذرائع ابلاغ اب تک روسی پروپیگنڈے کو پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

برطانیہ کے غیر منافعی سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ کے مطابق، سرفہرست چار چینی سرکاری ذرائع ابلاغ -- سی جی ٹی این، گلوبل ٹائمز، ژنہوا نیوز اور ٹی ہاوس -- ہی فیس بک پر مشترکہ 283 ملین پیروکاروں کے ساتھ، بڑے پیمانے پر سامعین تک پہنچتے ہیں۔

الائنس فار سیکیورنگ ڈیموکریسی کے مطابق، چین کے ریاستی کنٹرول والے چینلز کے صرف فیس بک پر ایک ارب سے زیادہ فالوورز ہیں، حالانکہ اس ملک میں سوشل نیٹ ورک پر پابندی ہے۔

چینی ذرائع ابلاغ اور حکام، یوکرین کے حوالے سے کریملن کی ترجیحی اصطلاحات استعمال کرنے میں محتاط رہے ہیں۔

جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کا اعلان کیا تو ژنہوا اس بات پر قائم رہا کہ یہ ایک "فوجی کارروائی" تھی اور ماسکو کا یوکرین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا "کوئی ارادہ نہیں" ہے۔

ریاست سے وابستہ آؤٹ لیٹ کو جاری کیے جانے والا ایک ہدایت نامہ، جو فروری میں آن لائن گردش کر رہا تھا، میں بظاہر ہدایت کی گئی ہے کہ روس کے لیے ناگوار یا مغرب نواز مواد پر مشتمل خبریں شائع نہ کی جائیں۔

چینی ذرائع ابلاغ کی طرف سے پھیلائی جانے والی دیگر جھوٹی داستانوں میں نو نازی کہانیاں شامل ہیں، جن میں نیٹو کے "مشرق کی طرف پھیلاؤ" کو تنازعہ کا ذمہ دار ٹھہرانا اور یوکرین پر روس کے حملے کو عراق، شام اور افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں سے تشبیہ دینے کی کوشش کرنا شامل ہے۔

چینی چینلز نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کی لیبارٹریز چلاتا ہے اور یوکرین کے نو نازیوں نے بچوں کے ہسپتال پر بمباری کی تھی -- جو درحقیقت روسی فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی بمباری تھی۔

شمالی آئرلینڈ میں چین کے قونصل جنرل نے بھی روسی سرکاری ذرائع ابلاغ کے اس جھوٹے دعوے کو بھی ٹویٹ کیا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی پولینڈ میں چھپے ہوئے ہیں۔

پوتن 'ہیرو'

دریں اثنا چین کے اندر، سی سی پی کی تیار کردہ ایک دستاویزی فلم جو پوتن کو ایک "ہیرو" کے طور پر پیش کرتی ہے، حکام کے درمیان گردش کر رہی ہے۔ یہ خبر نیویارک ٹائمز نے 4 اپریل کو دی۔

جذباتی موسیقی اور تصاویر کے ساتھ، دستاویزی فلم سوویت تاریخ میں روسیوں کے حب الوطنی کے فخر کی تجدید اور جنگ کے وقت کے عظیم رہنما کے طور پر جوزف اسٹالن کے موقف کو بحال کرنے کے لیے پوٹن کی تعریف کرتی ہے۔

اس کا استدلال ہے کہ سٹالن کی تطہیر بہت آگے چلی گئی لیکن سوویت حکمرانی کو لاحق خطرات کے پیش نظر ابتدائی طور پر یہ "ایک ضرورت تھی"۔

1930 کی دہائی میں اسٹالن کی عظیم دہشت گردی کے دوران , سوویت آمر نے تقریباً 30 لاکھ شہریوں کو گولاگ جبری مشقت کے کیمپوں میں موت کے گھاٹ اتارا اور کم از کم 10 لاکھ کو اس کی پالیسیوں کی مخالفت یا مختلف تصوراتی جرائم کی پاداش میں سزائے موت دی گئی۔ یہ بات ییل کے مؤرخ اور مصنف ٹموتھی سنائیڈر نے بتائی.

1930-1933 کے قحط کے دوران 50 لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے۔

کچھ مورخین سوویت یونین میں سٹالن کی حکومت کو 20 ملین اموات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

قازقستان، کرغزستان اور ازبکستان میں متعدد فلموں، تاریخ کی کتابوں اور عدالتی کارروائیوں نے سٹالن کی سفاکانہ میراث کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے۔

سی سی پی کی دستاویزی فلم گزشتہ سال مکمل ہوئی تھی اور اس میں یوکرین کی جنگ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن یہ دلیل دی گئی ہے کہ روس کا اپنے سابق سوویت پڑوسیوں کے بارے میں فکر کرنا درست ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے "مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور جنوبی قفقاز کے کچھ ممالک، مغرب کی طرف سے روس پر قابو پانے اور اس میں مداخلت کرنے کے لیے، آگلی صفوں میں آ گئے ہیں۔"

دستاویزی فلم کے سخت آواز والے راوی نے ایک روسی عالم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "جوہری ہتھیاروں کے علاوہ، مغرب کے پاس سب سے طاقتور ہتھیار، نظریاتی جدوجہد میں استعمال کیے جانے والے طریقے ہیں۔"

ایک تنبیہی کہانی

بیجنگ نے طویل عرصے سے سوویت یونین کی ناکامی کو ایک تنبیہی کہانی کے طور پر استعمال کیا ہے، لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے اسے ایک اور منحوس گھماؤ دیا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں چائنا سٹریٹیجیز گروپ کے صدر اور چینی سیاست کے انٹیلی جنس ایجنسی کے سابقہ تجزیہ کار، کرسٹوفر کے جانسن نے کہا کہ "وہ درحقیقت رنگین انقلابات کے بارے میں اپنے بیانیے پر یقین رکھتے ہیں اور اس ساری صورتحال کو پوتن کو ہٹانے کے لیے امریکی قیادت کی طرف سے برپا کیے جانے والے رنگین انقلاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔"

جانسن نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ "شی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر، اس تاریک داستان کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ اسے اپنے طاقت کے جمع کرنے اور جدوجہد اور خطرے کے احساس کو پیدا کر کے کی گئی تبدیلیوں کا جواز پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔"

دستاویزی فلم کے علاوہ، چینی یونیورسٹیوں نے طلباء کو یوکرین کی جنگ کے بارے میں "درست سمجھ" دینے کے لیے کلاسوں کا اہتمام کیا ہے۔

اس طرح کے تربیتی لیکچر بتاتے ہیں کہ حکام کو اس بات کی فکر ہے کہ نوجوان اور تعلیم یافتہ چینی شہری، روس کے بارے میں بیجنگ کے موقف پر تنقید کو ممکنہ طور پر قبول کر سکتے ہیں۔

بیجنگ کے پاس پریشان ہونے کی وجہ ہے، کیونکہ پارٹی لائن میں کچھ دراڑیں نظر آنے لگی ہیں۔

شنگھائی میں سیاسی طور پر اچھے تعلقات رکھنے والے عالم ہو وی نے 12 مارچ کو یو ایس چائنا پرسیپشن مانیٹر ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں پوتن کی مذمت کرنے میں، بیجنگ کے انکار پر تنقید کی۔

مضمون آن لائن پھیل گیا اور کچھ قارئین کی طرف سے اس کی تعریف ہوئی۔ چین میں حکام نے ویب سائٹ کو بلاک کر دیا اور اسے سوشل میڈیا پر سنسر کرنے کی کوشش کی۔

ہو نے لکھا کہ چین کے اندر، یوکرین میں جنگ نے "بہت زیادہ اختلافات کو ہوا دی ہے اور حامیوں اور مخالفین کو قطبی انتہا پر کھڑا کر دیا ہے"۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ "چین کو پوتن کے ساتھ جوڑا نہیں جانا چاہیے اور اسے جتنی جلدی ہو سکے خود کو ان سے الگ کر لینا چاہیے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500