سفارتکاری

چین اور روس کی 'دنیا کو آمریت کے لیے محفوظ' بنانے کی سازش

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک ہی رنگ کی ٹائیاں اور سوٹ پہنے ہوئے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن (بائیں) اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں اپنی ملاقات کے دوران تصویر کھنچواتے ہوئے۔ [الیگزی دروزینن/سپتنک/اے ایف پی]

ایک ہی رنگ کی ٹائیاں اور سوٹ پہنے ہوئے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن (بائیں) اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں اپنی ملاقات کے دوران تصویر کھنچواتے ہوئے۔ [الیگزی دروزینن/سپتنک/اے ایف پی]

ایک مشترکہ خطرے سے حوصلہ افزائی لیتے ہوئے -- اپنی سرحدوں پر تیزی سے مغربی طرز کی جمہوریتوں والے ممالک -- روس کے ولادیمیر پیوٹن اور چین کے شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے عالمی سیاسی اور فوجی نظم کے "نئے دور" میں متحد رہنے کا عزم کیا۔

بیجنگ سرمائی اولمپکس کے افتتاحی روز جمعہ (4 فروری) کو دونوں آمروں کی ملاقات ہوئی، جس میں ایک طویل مدتی معاہدے کی نقاب کشائی کی گئی جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس نے امریکہ کو بطور عالمی طاقت، نیٹو اتحاد اور مجموعی طور پر ایک لبرل جمہوریت کو للکارا ہے۔

ملاقات کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا انہوں نے کہا، "دونوں ریاستوں کے درمیان دوستی کی کوئی حد نہیں ہے۔ تعاون کے کوئی 'ممنوعہ' علاقے نہیں ہیں۔"

پیوٹن اور شی نے خلاء، مصنوعی ذہانت، موسمیاتی تبدیلی اور انٹرنیٹ کے کنٹرول سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کرنے کا عہد کیا.

6 فروری کو روسی فوجی یوکرین کی سرحد سے متصل فوجی ضلع میں گیس ماسک پہنے مشقیں کر رہے ہیں۔ [روسی وزارت دفاع]

6 فروری کو روسی فوجی یوکرین کی سرحد سے متصل فوجی ضلع میں گیس ماسک پہنے مشقیں کر رہے ہیں۔ [روسی وزارت دفاع]

چینی فوجی اہلکار بحیرۂ جنوبی چین میں ایک میزائل بردار چھوٹے جہاز سے فائر کر رہے ہیں، جہاں بیجنگ غیر قانونی طور پر خودمختاری یا کسی نہ کسی طرح کے خصوصی دائرہ اختیار کا دعویدار ہے۔ [چینی وزارت دفاع]

چینی فوجی اہلکار بحیرۂ جنوبی چین میں ایک میزائل بردار چھوٹے جہاز سے فائر کر رہے ہیں، جہاں بیجنگ غیر قانونی طور پر خودمختاری یا کسی نہ کسی طرح کے خصوصی دائرہ اختیار کا دعویدار ہے۔ [چینی وزارت دفاع]

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت کی کوئی "مخصوص قسم نہیں ہے جو سب کے لیے ہو" - یہ ماسکو اور بیجنگ کے لیے ایک آسان دعوی ہے جو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں جمہوری تحریکوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

"بیان میں کہا گیا کہ روس اور چین بیرونی طاقتوں کی طرف سے اپنے مشترکہ ملحقہ علاقوں میں سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، کسی بھی بہانے خودمختار ممالک کے اندرونی معاملات میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، رنگین انقلابات کی مخالفت کرتے ہیں، اور تعاون میں اضافہ کریں گے۔"

دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ " فریقین نیٹو کی مزید توسیع کی مخالفت کرتے ہیں اور شمالی بحرِ اوقیانوس کے اتحاد سے سرد جنگ کے دور کے نظریاتی انداز کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں،" اس میں زور دیا گیا ہے کہ "دوسرے ممالک کی خودمختاری، سلامتی اور مفادات" کا احترام کیا جائے۔

دنیا کو آمریت کے لیے محفوظ بنانا

ایشیاء سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ (اے ایس پی آئی) پر نائب صدر برائے بین الاقوامی سلامتی اور سفارت کاری، ڈینیئل رسل نے رائٹرز کو بتایا، "دونوں رہنماء ایک ساتھ کھڑے ہونے اور امریکہ اور مغرب کے خلاف کھڑے ہونے کے اپنے عزم کا اعلان کر رہے ہیں -- پابندیوں کا مقابلہ کرنے اور امریکی عالمی قیادت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں"۔

واشنگٹن ڈی سی میں ولسن سنٹر میں چین اور امریکہ کے بارے میں کسنجر انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ ڈیلی نے اس بات اتفاق کیا۔

انہوں نے نیویارکر کو بتایا، "یہ ایک عہد ہے کہ وہ نظریاتی اور عسکری طور پر امریکہ اور مغرب کے خلاف شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔"

انہوں نے معاہدے کے تزویراتی وقت کی طرف توجہ دلائی، کیونکہ یوکرین سمیت سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ روس کی سرحدوں پر تناؤ بڑھ رہا ہے، اور تائیوان کے خلاف چین کی فوجی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے.

جمہوری اور خود مختار تائیوان آمرانہ چین کے حملے کے مسلسل خطرے میں رہتا ہے، جو اس جزیرے کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے ایک دن -- اگر ضرورت پڑی تو بزورِ طاقت -- اس پر قبضہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔

سنہ 1949 سے تائیوان کی اپنی حکومت ہے۔

لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات، سٹیو سانگ نے کہا، اولمپکس کے آغاز پر ہی سرِعام آتے ہوئے، پیوٹن اور شی نے "دنیا کو آمریت کے لیے، خاص طور پر سابق سوشلسٹ ممالک میں محفوظ بنانے کے لیے ایک بہتر عزم ظاہر کیا ہے۔"

کوئی 'اتحاد' نہیں

سانگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ شی کے لیے، یوکرین پر عوامی موقف اختیار کرنا "امریکہ کے زیرِ تسلط عالمی نظام کو للکارے کے لیے پیوٹن کے ساتھ ان کی مشترکہ دلچسپی" کو ظاہر کرتا ہے۔

بدلے میں روس نے، بیجنگ کی "ایک چائنہ" پالیسی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا -- تائیوان کے حوالے سے "کسی بھی قسم کی آزادی" کی مخالفت کرتے ہوئے -- اور گزشتہ دو سالوں میں ہانگ کانگ کی جمہوریت نواز تحریک پر بیجنگ کے بے رحم کریک ڈاؤن کی حمایت کی۔

پیوٹن نے چین کے ساتھ وسیع تر تزویراتی شراکت داری کو "بے مثال" اور "باوقار" قرار دیا، جب کہ شی نے کہا کہ ان کے مشترکہ معاہدے سے "چین، روس اور دنیا پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔"

چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ سنہ 2014 میں روس کے کریمیا کو یوکرین سے توڑ کر اپنے ساتھ ملا لینے کے بعد سے شی اور پیوٹن کے درمیان متواتر ملاقاتوں پر زور دیتے رہے ہیں، جس میں روسی رہنماء کو مغرب کی طرف سے بڑی حد تک بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔

چین کے گلوبل ٹائمز نے حال ہی میں نوٹ بتایا کہ "باضابطہ ملاقاتوں کے علاوہ، دونوں نے کچھ قربت کے لمحات بھی مل کر گزارے جیسے ووڈکا، کیویئر اور روسی آئس کریم سے لطف اندوز ہونا اور ایک دوسرے کی سالگرہ منانا"۔

سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں رڈل تھنک ٹینک کے تجزیہ کار اینٹن بارباشین نے کہا کہ روس اور چین کے درمیان بڑھے ہوئے تعلقات کو اب بھی "اتحاد" نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "لیکن ہم یقینی طور پر بین الاقوامی تعلقات میں مزید مربوط عمل دیکھنے والے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یورپ اور ایشیاء میں بیک وقت مہمات، اور ساتھ ہی ماسکو اور بیجنگ کے درمیان مزید گہرے ہوتے ہوئے اقتصادی تعلقات"۔

اس طرح کی شراکت داری قائم کرنے کی کوشش میں ایک تشویش چین اور روس کے درمیان وسیع اقتصادی تفاوت ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، سنہ 2020 میں چین کی جی ڈی پی روس کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ تھی -- 1.5 ٹریلین ڈالر سے کم کے مقابلے میں 14.7 ٹریلین ڈالر سے زیادہ۔

موقعے کی قیمت چکانی پڑتی ہے

پیوٹن کے یوکرین کے معاملے پر مغرب کے سامنے اظہارِ برتری میں شی کی جانب سے روس کی حمایت ایک اہم موڑ ہے۔

روس نے یوکرین کی سرحدوں پر 100,000 فوجیوں کو جمع کر رکھا ہے اور مغربی ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر اس نے حملہ کیا تو ماسکو پر تباہ کن پابندیاں لگائیں گے۔

پیوٹن کی شی کے ساتھ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے پاس ماسکو کی طرف سے اپنے پڑوسی پر حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے روسیوں پر جعلی یوکرینی حملے کی فلم بنانے کے منصوبے کے ثبوت موجود ہیں۔

پیوٹن نیٹو کی توسیع کو روکنے کا مطالبہ کرنے کے لیے یوکرین پر حملہ کرنے کی دھمکی کا استعمال کر رہے ہیں، اور اب انہیں بیجنگ کی واضح حمایت حاصل ہے۔

ماسکو کو سنہ 2008 میں جارجیا میں روس کی جنگ، سنہ 2014 میں یوکرین پر حملے یا کریمیا کے الحاق کے لیے بیجنگ کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

کیف اور ماسکو کے حامی علیحدگی پسند جنگجوؤں کے درمیان لگ بھگ آٹھ سال کی لڑائی میں 13,000 سے زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

تاہم، اس بار چین کے لیے رشوت اس کی اپنی ہی پائیں گاہ میں ہو سکتی ہے: یوکرین اور دیگر مشرقی یورپی ممالک پر زیادہ امریکی فوجیوں کی توجہ کا مطلب ہے کہ بحرالکاہل میں بیجنگ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے کم عسکری وزن۔

مثال کے طور پر، یوکرین پر کسی بھی حملے میں ماسکو کو امریکی ردِعمل، تائیوان پر کنٹرول حاصل کرنے کے کسی بھی چینی اقدام پر بہت زیادہ وزن ڈال سکتا ہے، جس کی آزادی کا واشنگٹن نے اشارہ دیا ہے کہ وہ دفاع کرے گا۔

مغرب کی طرف جھکاؤ

اپنی طرف سے، کیف نے بڑھتی ہوئی روسی جارحیت کے درمیان اپنے مغربی اتحادیوں کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

روس کی "جھوٹی" کارروائیوں پر امریکی خفیہ رپورٹوں کے جواب میں، یوکرین کے وزیر خارجہ دیمترو کولیبا نے جمعے کے روز کہا، "سنہ 2014 کے بعد سے، ہم نے روسی فیڈریشن کی طرف سے بہت سے مکروہ اقدامات دیکھے ہیں؛ ہم نے دیکھا ہے کہ جب وہ یوکرین کے خلاف من گھڑت اور الزام تراشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کسی بھی چیز سے باز نہیں آتے"

کولیبا نے کہا کہ مبینہ منصوبہ کوئی "حیرت کی بات" نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بہت اہم ہے کہ روس کے کسی بھی منصوبے، کسی بھی عزائم کو سامنے لایا جائے اور ہم انہیں ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔"

واشنگٹن کا یہ دعویٰ کیف کی حمایت میں اضافے کے لیے یورپی رہنماؤں بشمول برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے دوروں کے بعد سامنے آیا ہے۔

کولیبا نے حمایت کے اظہار کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے روس کو "امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب کرنے" سے روک دیا ہے۔

چینی جارحیت کے پیش نظر تائیوان نے بھی مغرب کی سیاسی اور فوجی حمایت پر اظہار تشکر کیا ہے۔

منگل کے روز، تائی پے نے اپنے فضائی اور میزائل دفاعی نظام کو سہارا دینے کے لیے 100 ملین ڈالر تک کے آلات اور خدمات فروخت کرنے پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔

تائیوان کی وزارت دفاع کے مطابق یہ معاہدہ مارچ میں کسی وقت مؤثر ہونا متوقع ہے۔

امریکی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے کہا ہے کہ اس معاہدے میں انجینئرنگ کی معاونت اور فضائی دفاعی نظام کی دیکھ بھال شامل ہے اور یہ "فضائی کارروائیوں کے لیے تیاری کو یقینی بنائے گا"۔

اس کا کہنا تھا، "وصول کنندہ اس صلاحیت کو علاقائی خطرات سے نمٹنے اور وطن کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرے گا۔"

بیجنگ نے حالیہ مہینوں میں تائیوان کے فضائی دفاعی شناختی زون میں دراندازی میں نمایاں اضافہ کیا ہے، سنہ 2021 کی آخری سہ ماہی میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اے ایف پی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے سال تائیوان نے چینی جنگی طیاروں کی طرف سے 969 دراندازیاں ریکارڈ کی تھیں – جو سنہ 2020 میں کی گئی تقریباً 380 دراندازیوں سے دوگنا ہیں۔

نیا سال اسی رجحان کی پیروی کرتا دکھائی دیتا ہے: تائیوان کی وزارت دفاع نے جنوری میں دو دنوں کے دوران 52 جنگی طیاروں کا علاقے میں داخل ہونا ریکارڈ کیا، جو کہ ایک مختصر عرصے میں ایک بڑا اضافہ ہے۔

تائیوان کے صدارتی ترجمان شاویئر چانگ نے منگل کو ایک بیان میں کہا، "یہ [امریکی] صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تائیوان کو ہتھیاروں کی دوسری فروخت ہے اور اس سال پہلی بار ہے۔"

"یہ... تائیوان اور امریکہ کے درمیان چٹان جیسی مضبوط شراکت داری کی عکاسی کرتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500