معیشت

رئیسی کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تجارت میں ایرانی ریال کے استعمال کی تجویز پر اشتعال

از حمزہ

مرد 21 فروری کو تہران میں ایک پیسے تبدیل کروانے کی دکان پر کرنسی کی شرح تبادلہ کو دیکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین کی تازہ پابندیوں کے درمیان 20 جنوری کو ایران کی کرنسی نئی کم ترین سطح پر گر گئی، غیر ملکی کرنسی مارکیٹوں میں ایک ڈالر 500,000 ایرانی ریال کی نفسیاتی طور پر اہم شرح کو عبور کر گیا۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

مرد 21 فروری کو تہران میں ایک پیسے تبدیل کروانے کی دکان پر کرنسی کی شرح تبادلہ کو دیکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین کی تازہ پابندیوں کے درمیان 20 جنوری کو ایران کی کرنسی نئی کم ترین سطح پر گر گئی، غیر ملکی کرنسی مارکیٹوں میں ایک ڈالر 500,000 ایرانی ریال کی نفسیاتی طور پر اہم شرح کو عبور کر گیا۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

کابل -- افغان تاجروں اور ماہرین اقتصادیات نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اس تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کو کاروبار اور تجارت کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے ایرانی ریال کا استعمال کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے افغانستان مزید الگ تھلگ ہو جائے گا، افغانی کی قدر میں کمی آئے گی، معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا اور افغانوں کو اضافی تکلیف پہنچے گی.

رئیسی نے یہ تجویز 30 اپریل کو صوبہ خوزستان میں ایرانی تاجروں کے ساتھ ایک تقریب میں پیش کی۔

طلوع نیوز کے مطابق، انہوں نے کہا، "عراق کے ساتھ، ہم ریال کا استعمال کر سکتے ہیں، ہم ایسا افغانستان کے ساتھ اور کچھ دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ اور بھی مسائل ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور جو ایک موثر اور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں"۔

4 اگست 2018 کو ایران سے واپس آنے والا ایک افغان (دائیں) صوبہ ہرات میں کرنسی ایکسچینج میں ایرانی بینک نوٹ گنتے ہوئے [ہوشانگ ہاشمی/اے ایف پی]۔

4 اگست 2018 کو ایران سے واپس آنے والا ایک افغان (دائیں) صوبہ ہرات میں کرنسی ایکسچینج میں ایرانی بینک نوٹ گنتے ہوئے [ہوشانگ ہاشمی/اے ایف پی]۔

اقتصادی تجزیہ کاروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ خیال مضحکہ خیز اور افغانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق، سنہ 2022 میں، ممالک نے اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر کا 58 فیصد سے زیادہ ڈالر میں رکھا۔

افغانستان سٹیل سمیلٹنگ یونین کے سی ای او اور کابل میں مقیم اقتصادی تجزیہ کار عبدالنصیر رشتیا نے کہا، "دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی کرنسی کی پشت پناہی کے لیے امریکی ڈالر استعمال کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا، "اگر افغانستان کے ساتھ تجارتی لین دین میں ریال کا استعمال کیا جائے تو ایرانی حکومت اور عوام کو فائدہ ہو گا، لیکن یہ افغانستان کے لیے نقصان دہ ہو گا، جس سے بدقسمتی سے اس کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے"۔

رشتیا نے کہا، "ہمارے تاجر زیادہ تر تجارتی سامان اور خام مال ایران سے درآمد کرتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا، " ایرانی کرنسی غیر مستحکم اور بیکار ہے۔ اگر ایرانی ریال کاروباری لین دین میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے افغان تاجروں کو نقصان پہنچے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو نقصان پہنچے گا، اور سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو پہنچے گا"۔

وزارتِ صنعت و تجارت (ایم او آئی سی) نے کہا کہ ایران کے ساتھ افغانستان کی سالانہ تجارت 1 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

طلوع نیوز کے مطابق، ایم او آئی سی کے ترجمان، عبدالسلام جواد نے کہا، "ہم نے 28 ملین ڈالر کی برآمدات اور 1.47 بلین ڈالر کی درآمدات [مارچ 2022 تا مارچ 2023 کے شمسی سال میں] کیں"۔

تباہ کن نتائج

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ ایرانی کرنسی میں کسی بھی قسم کا کاروباری لین دین افغانستان کے لیے خطرناک اور تباہ کن اقتصادی نتائج کا حامل ہو گا۔

کابل میں مقیم ایک افغان تاجر محمد زلمے عظیمی نے کہا، "ایران کا افغانستان کے ساتھ تجارت میں اپنے ریال کا استعمال کرنا بہت مشکل اور تشویشناک ہے کیونکہ خطے اور دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ ہماری تجارت، برآمدات اور درآمدات امریکی ڈالر میں ہوتی ہیں۔ ڈالر عالمی اعتبار اور استحکام کے ساتھ بین الاقوامی کرنسی ہے"۔

عظیمی نے کہا کہ اس طرح کی تجویز، اگر نافذ ہوتی ہے تو، "فطری طور پر [ایران کے] بہترین مفاد میں ہے لیکن افغانستان کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ ایرانی ریال بے وقعت ہے، جس کی خطے اور دنیا میں کوئی اعتبار یا قدر نہیں ہے"۔

انہوں نے مزید کہا، "ایرانی ریال استعمال کرتے ہوئے تجارتی لین دین سے افغانستان کے نجی شعبے، کاروباری اداروں اور عوام کو نقصان پہنچے گا، جس سے ہماری تجارت اور معیشت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا"۔

افغانستان کی صنعتکار یونین کے ڈائریکٹر عبدالجبار ساپی نے کہا کہ افغانستان اور دیگر پڑوسیوں کے ساتھ ریال کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کی رئیسی کی خواہش کا مقصد "[ایران کی] کرنسی کو سہارا دینا، ایرانی عوام اور کاروباری اداروں کے مفاد کو یقینی بنانا اور اپنے ملک میں اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا" ہے۔

انہوں نے کہا، "افغانستان ایک درآمد کنندہ ملک ہے جہاں ایران کو بہت کم برآمدات ہوتی ہیں؛ لہٰذا، ایرانی ریال کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی تجارتی لین دین ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر ایسے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ افغانستان کے کاروبار، معیشت اور عوام کے لیے بڑا دھچکا ہو گا، جو کہ ناقابلِ قبول ہے"۔

ساپی نے کہا، "میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ تومان یا ایرانی ریال دنیا کی سب سے بیکار کرنسی ہے، جس میں عالمی شہرت اور اعتبار کا فقدان ہے، اور یہ ایران میں اقتصادی تباہی کا سبب بنی ہے"۔

"ایرانی کرنسی کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا لین دین نامعقول ہے، اور اگر ہم کسی بھی قسم کے کاروباری لین دین میں ایرانی کرنسی کا استعمال کرتے ہیں، تو یہ ہمارے لیے مکمل طور پر نقصان دہ ہو گا"۔

بُرے پڑوسی، بدتر شراکت دار

متحدہ عرب امارات میں رہنے والے ایک افغان اقتصادی تجزیہ کار عبدالواسع دانش یار نے "ہمارے پڑوسیوں کی طرف سے برآمد کیے گئے ناکام طریقوں اور پالیسیوں کو اپنانے" کے خلاف متنبہ کیا ہے جن کا مقصد افغانستان کو "تباہ کرنا" ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرانی کرنسی کے استعمال کے مجموعی طور پر تباہ کن اور خطرناک معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ افغانی کے خاتمے کا سبب بنے گا، جس سے معاشی نظام تباہ ہو جائے گا اور افغانی کا استعمال محدود ہو جائے گا، جبکہ منظور شدہ ریال کا استعمال بڑھے گا اور اس کی قدر بڑھے گی"۔

ان کا کہنا تھا، "یہ افراطِ زر اور منڈی میں افغانی کی قدر میں کمی کا باعث بنے گا"۔

دانش یار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی معیشت درآمد پر مبنی ہے جس میں پیداواری اور برآمدی صلاحیت بہت کم ہے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "ہمارا انحصار ڈالر پر مبنی امدادی رقم پر ہے۔ اگر ہم نے ڈالر کے خاتمے کی ناکام ایرانی اقتصادی پالیسیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا تو ہم اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماریں گے، اور آخرکار ہم پر پابندیاں عائد ہو جائیں گی جو ہماری مصیبت، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ کریں گی اور ترقی کو روک دیں گی"۔

انہوں نے کہا، "ہماری کرنسی کی قدر جتنی زیادہ کم ہو گی، اتنا ہی ہمارے لوگ اور ملک خطے میں کمزور ہوں گے، جو معاشی تباہی کا باعث بنے گا۔ اس سے باہر آنا بہت مشکل ہو گا"۔

سکڑتی ہوئی تجارت

کابل میں مقیم اقتصادی تجزیہ کار، شاکر یعقوبی نے کہا کہ تجارتی لین دین میں ایرانی ریال کے استعمال کی تجویز کوتاہ نظری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ایران کے مالی اور مالیاتی نظام کو فائدہ پہنچانا اور اس کی کرنسی کی قدر کو بڑھانے میں مدد کرنا ہے۔

یعقوبی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ "افغانستان کی معیشت کا دارومدار امریکی ڈالر پر ہے، جبکہ دیگر کرنسیوں کا بھی ڈالر کے مقابلہ میں حساب لگایا جاتا ہے اور تمام کاروباری لین دین امریکی ڈالر میں ہوتا ہے"۔

"اگر یہ فیصلہ لاگو ہوتا ہے، تو افغان معیشت کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ، یہ افغان تاجروں کی ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گا اور انہیں متبادل تلاش کرنے پر مجبور کرے گا"۔

یعقوبی نے کہا، "اگر کاروباری لین دین میں ایرانی ریال کا استعمال کیا جاتا ہے، تو افغان تاجر کبھی بھی اپنی قیمتی اشیاء کو بیکار ایرانی ریال کے عوض فروخت نہیں کریں گے یا اپنی کرنسی کی بنیاد پر ایرانی کاروباری اداروں کے ساتھ کاروبار نہیں کریں گے"۔

انہوں نے کہا، "اس سے دونوں ممالک کے درمیان برآمدات اور درآمدات میں کمی آئے گی، اور ہمارے تاجر ان ممالک کا رخ کریں گے جو امریکی ڈالر استعمال کرتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500