اسلام آباد -- اقتصادی ماہرین اور تھنک ٹینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان قرضے اور مالیاتی معاہدے پاکستان کے جاری معاشی بحران کے اہم عوامل میں سے ہیں۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نبردآزما، پاکستان کی نئی حکومت نے جمعہ (10 جون) کے روز 9.5 کھرب پاکستانی روپے (47 ارب ڈالر) کا بجٹ پیش کیا، جس میں ملک کے بڑے غیر ملکی اور ملکی قرضوں کو پورا کرنے کے لیے 40 فیصد سے زائد رقم مختص کی گئی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں 3.95 کھرب پاکستانی روپے (19 ارب ڈالر) صرف ملک کے 128 ارب ڈالر کے قرضوں کو پورا کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دستخط کیے گئے 6 ارب ڈالر کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکیج پر کبھی بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا گیا کیونکہ ان کی حکومت نے کچھ سبسڈیز کو کم کرنے یا ختم کرنے اور محصولات اور ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنانے کے معاہدوں سے انکار کر دیا تھا۔
اسلام آباد کو اب تک 3 ارب ڈالر موصول ہو چکے ہیں، پروگرام اس سال کے آخر میں ختم ہونے والا ہے۔
حکام جون 2023 تک پروگرام میں توسیع کے ساتھ ساتھ 1 بلین ڈالر کی اگلی قسط کے اجراء کے خواہش مند ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسائل کئی دہائیوں سے آنے والی حکومتوں اور فوجی حکمرانوں کے ناقص معاشی انتظام کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جو مقامی بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر ٹیکس سے بچاؤ سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
چینی قرضوں کا پھندا
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، پر تنقید شروع ہوئی کہ یہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ڈالتا ہے اور چین کو "قرضوں کے پھندے کی سفارت کاری" سے فائدہ اٹھانے کے قابل بناتا ہے۔
مئی 2021 میں شائع ہونے والی امریکی ادارہ برائے امن کی رپورٹ کے مطابق، "پاکستان کی معیشت پر اثر و رسوخ ڈالنے کی چین کی صلاحیت میں حالیہ برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ اب اسلام آباد کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے۔"
جون 2013 میں پاکستان کا کل عوامی اور عوامی طور پر ضمانت یافتہ بیرونی قرضہ 44.35 ارب ڈالر تھا، جس میں سے صرف 9.3 فیصد کا وہ چین کا مقروض تھا۔
رپورٹ میں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اپریل 2021 تک، یہ بیرونی قرضہ 90.12 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جس میں پاکستان 27.4 فیصد -- 24.7 ارب ڈالر – کا چین کا مقروض تھا۔
حکام نام نہاد "قرض کے پھندے" سے تیزی سے آگاہ ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "بیجنگ، جو 'ہر موسم کا دوست' ہونے کا دعویدار ہے، اس نے اسلام آباد کو بدترین معاشی صورتحال سے نکلنے میں مدد نہیں دی اور اس کی بجائے اس نے [پاکستان پر] قرض ادا کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا ہے"۔
اہلکار نے بتایا کہ یہ معاملہ اتنا متنازعہ تھا کہ اسلام آباد نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو مالی مدد کے لیے امریکہ بھیجا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھٹو زرداری نے 18 مئی کو نیو یارک میں امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کی جس میں "مضبوط اور خوشحال دوطرفہ تعلقات کی مشترکہ خواہش کی توثیق کی گئی"۔
اس میں مزید کہا گیا کہ فریقین نے "آب و ہوا، سرمایہ کاری، تجارت اور صحت میں شراکت داری کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوام سے عوام کے تعلقات" پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ خوشحال اور مستحکم پاکستان کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری اور تجارت کے مواقع کو بڑھانے کے طریقوں پر دو طرفہ طور پر کام کرتا رہے گا۔
چین مخالف جذبات
بیجنگ نے حالیہ برسوں میں اسلام آباد کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے معاہدے کیے ہیں۔
لیکن ان سودوں نے مقامی باشندوں میں چینی اثر و رسوخ اور کمپنیوں کے مزدوری کے طریقوں، خاص طور پر چینی شہریوں کو پاکستانی مزدوروں سے زیادہ ادائیگیوں پر ناراضگی کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، اس تشویش کو ہوا دی کہ مشترکہ گروپ خطے میں پُرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ کر دے گا۔
اپریل کے آخر میں، بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) کے ایک جزو، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کو نشانہ بناتے ہوئے خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
فروری میں بھی بی ایل اے کے علیحدگی پسندوں نے بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر دو حملے کیے تھے۔
پنجگور کے مقامی ایک سیاسی کارکن، مجتبیٰ بلوچ نے اس وقت کہا تھا، "2 فروری کے حملوں کا تعلق، وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ چین سے چند گھنٹے قبل، بیجنگ کے ساتھ [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر بلوچ آبادی کی شکایات سے تھا۔"