اسلام آباد -- اقتصادی ماہرین اور دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین سے قرضوں اور اس کے ساتھ مالیاتی معاہدوں نے پاکستان کے قرضوں کو بڑھا دیا ہے اور ملک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں کا شکار بنا دیا ہے۔
ملک کو ریکارڈ افراطِ زر، مالیاتی عدم توازن اور زرِمبادلہ کے ذخائر کا سامنا ہے جو بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کر پاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے 10 جون کو کہا کہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی مشغولیت کے لیے اپنے بیرونی دو طرفہ قرضوں کی تنظیمِ نو پر غور کر رہی ہے۔
پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام اس ماہ ختم ہونے والا ہے جس میں تقریباً 2.5 بلین ڈالر کے فنڈز جاری ہونا باقی ہیں۔
ڈار نے مالی سال 2024-2023 کا بجٹ کے اجراء کے ایک روز بعد صحافیوں کو بتایا، "موجودہ حالات، جیسے کہ کووڈ کی عالمی وباء اور قدرتی آفات کے اثرات، میں پاکستان دو طرفہ قرض دہندگان سے قرض کی تنظیمِ نو کا مطالبہ کر سکتا ہے"۔
زیادہ تر مسئلہ چین سے ہے۔
یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کی اپریل کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے اہم قرض دہندگان میں چین شامل ہے جس کا قرض تقریباً 27 بلین ڈالر ہے اور 22 بڑے قرض دہندگان کے ایک گروپ پیرس کلب، کا قرض 8.5 بلین ڈالر ہے۔
یو ایس آئی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیگر قرض دہندگان میں ورلڈ بینک (18 بلین امریکی ڈالر)، ایشیائی ترقیاتی بینک (15 بلین امریکی ڈالر) اور آئی ایم ایف (7.6 بلین امریکی ڈالر) شامل ہیں۔
ایک گمنام پاکستانی اہلکار نے پیر کے روز نکی ایشیا کو بتایا کہ اسلام آباد کو توقع ہے کہ بیجنگ اپنے قرضوں کو دوبارہ ترتیب دے گا اور ڈیفالٹ کو روکے گا، خواہ آئی ایم ایف تعاون نہ بھی کرے۔
تاہم، انہوں نے تسلیم کیا، "فی الحال، اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ چین قرض کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے پاکستان کی درخواست پر رضامند ہو جائے گا"۔
چین نے ماضی میں کسی بھی قرض کی تنظیمِ نو کو مسترد کیا ہے۔
چینی قرضوں کا جال
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی)، چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو، جو ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہلاتا ہے، نے تنقید کو جنم دیا ہے کہ یہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ڈالتا ہے اور چین کو "قرضوں کے جال کی سفارتکاری" سے فائدہ اٹھانے کے قابل بناتا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے 24 مئی کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ پاکستان کا غیر ملکی قرضہ سنہ 2015 سے تقریباً دوگنا ہو کر 120 بلین ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے۔
ایف ٹی نے کہا، "اضافہ اجناس کے درآمدی بلوں میں اضافے، چین کی بی آر آئی بنیادی ڈھانچے کی پہل کاری کا حصہ بننے والے منصوبوں کے لیے قرض لینے اور کوویڈ-19 کی وباء کے نتیجے میں ہوا"۔
سی پیک کا باضابطہ طور پر آغاز اپریل 2015 میں کیا گیا تھا جب دونوں ممالک نے 51 معاہدوں اور 46 بلین ڈالر کی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔
ناجائز قرضوں کے خاتمے کے لیے کمیٹی (سی اے ڈی ٹی ایم)، بین الاقوامی کارکنوں کا ایک نیٹ ورک جس کا صدر دفتر بیلجیم میں ہے، کے پاکستانی نمائندے، عبدالخالق نے کہا، "سی پیک کے تحت قرضوں کو معاشی طور پر ناقابلِ عمل سمجھا گیا ہے، اور اس کے نتیجے میں، پاکستان کو اب اپنی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے"۔
خالق نے 16 مئی کو سی اے ڈی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر لکھا، "معاشی ماہرین کی طرف سے متنبہ کیا گیا تھا کہ جب چینی سرمایہ کار منافعے کی واپسی شروع کریں گے اور سنہ 2021 کے بعد، جب سی پیک میں خاطر خواہ ترقی نہ ہونے کی صورت میں ادائیگیوں میں اضافہ متوقع ہے، تو چینی بینکوں کے قرضوں سے پاکستان کا قرض ایک بوجھ بننے کا خطرہ ہے"۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کے ساتھ کام کرنے والے اسلام آباد میں مقیم ایک ماہر معاشیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "سی پیک سے منسلک تمام منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے بیجنگ کی طرف سے جو لاگت اور فنانسنگ کی شرائط میں توسیع کی گئی ہے وہ بہت مہنگی اور حد سے زیادہ استحصالی اور حد سے زیادہ چین کے حق میں ہے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ بیجنگ ترقی پذیر ممالک کو صرف زیادہ سے زیادہ منافع کو یقینی بنانے کے لیے رقم دیتا ہے۔
انہوں نے ایک حالیہ مثال کے طور پر پاکستان میں سی پیک سے منسلک بڑے ریل منصوبے مین لائن-1 (ایم ایل-1) کی جانب اشارہ کیا، جس میں پاکستان نے چین سے قرض لی جانے والی رقم میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔ قرض 6.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 9.85 بلین ڈالر ہو رہا ہے۔
مضمون اچھاہے لیکن ون سائڈڈہے۔اسے ڈیٹا کی مدد سے اور بہتر بنانا جاسکتا تھا۔اندرون سطور قاری کیلئے مایوسی جھلکتی ہے۔چائنا سے جب قرضہ لیا گیا تھا،قوم کو یہ سب نہیں بتایا گیا۔ لیا گیا تھا
جوابتبصرے 1