سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ مین لائن - ون (ایم ایل - ون) پر تعمیر، جو کہ پاکستانی ریل کا ایک بڑا منصوبہ ہے، کراچی کے کم آمدنی والے محلوں کے رہائشیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر رہا ہے۔
ایم ایل - ون منصوبے کا مقصد کراچی اور پشاور کے درمیان اور ٹیکسلا اور حویلیاں کے درمیان 1,872 کلومیٹر ریلوے ٹریک کو دوگنا اور جدید کرنا ہے۔
میگا ریلوے پراجیکٹ ان متعدد معاہدوں میں شامل ہے جن پر اسلام آباد نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بیجنگ کے ساتھ دستخط کیے ہیں، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔
کراچی کے کئی محلوں، جیسے کیماڑی اور شیریں جناح کالونی میں، پاکستانی حکام نے ایم ایل - ون منصوبے کی ریل پٹریوں کے گرد دیواریں تعمیر کر رکھی ہیں جس کا مقصد چینی مالیاتی منصوبے کو سبوتاژ ہونے سے بچانا ہے۔
تاہم، مقامی لوگوں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ دیواروں کی تعمیر نے 100,000 سے زیادہ رہائشیوں کی نقل و حرکت کو پیچیدہ اور محدود کر دیا ہے۔
شیریں جناح کالونی سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن جواد رحمن نے کہا کہ "مکینوں، خاص طور پر بوڑھوں، بیماروں، عورتوں اور بچوں کو آدھا میل پیدل چلنا پڑتا ہے کیونکہ نئی تعمیر شدہ دیواروں نے مرکزی سڑکوں تک رسائی کے لیے ان کے معمول کی جگہوں کو بند کر دیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ایم ایل - ون منصوبہ کراچی کے گنجان آباد محلوں سے گزرتا ہے اور اس وجہ سے ان علاقوں کے لیے دہشت گردی کے حملوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
رحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "عسکریت پسند اس منصوبے پر چین کے ساتھ اس کے روابط کی وجہ سے حملہ کر سکتے ہیں، جو ریل کی پٹریوں کے قریب رہنے والی آبادی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔"
جنوری 2021 میں، بلوچستان کی صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے گوادر میں بندرگاہ کے گرد خاردار باڑ لگانے سے روک دیا تھا، اس سے پہلے مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تھا کہ باڑ لگانے سے مقامی باشندوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آئے گی اور ماہی گیروں کو سمندری رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا۔
حالیہ برسوں میں، گوادر کے مقامی لوگوں نے "گوادر کو اس کا حق دو" نامی مہم کے جھنڈے تلے بہت سے مظاہرے کیے ہیں، جن میں مقامی اور چینی ٹرالروں کے ذریعے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور سی پیک کے منصوبوں کی طرف جانے والے راستوں پر بنی ہوئی سیکیورٹی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
چین کا بڑھتا ہوا قرض
ایم ایل- ون منصوبے وجہ سے، چین کا بھاری پیمانے پر مقروض ہو جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ ماہ چین سے درخواست کی کہ وہ 10 بلین ڈالر کے ایم ایل - ون منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے عمل کو تیز کرے جیسا کہ پہلےگزشتہ نومبر میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا۔یہ خبر ڈان نے 11 اپریل کو دی ہے۔
تاہم ماہرینِ اقتصادیات اور حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایم ایل ون منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چین سے مزید قرضے لینے سے، پاکستان کا جاری معاشی بحران مزید خراب ہو سکتا ہے۔
پاکستان، جو قرض دہندگان کے تقریباً 100 بلین ڈالر کے بیرونی قرض کا مقروض ہے، اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے بعد، دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔یہ خبر فنانشل ٹائمز (ایف ٹی) نے 4 جنوری کو دی ۔
چین کے ریاستی قرض دہندگان، اسلام آباد کے سب سے بڑے قرض دہندگان میں سے ہیں اور اس کے واجب الادا قرضوں میں ان کا تقریباً 30 بلین ڈالر کا حصہ ہے۔
ماہرِ اقتصادیات اور ورلڈ بینک کے سابق مشیر عابد حسن نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس وقت ایم ایل - ون کے منصوبے کو موخر کر دے۔
ایف ٹی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی آمدنی روپوں میں ہے لیکن غیر ملکی کرنسی کے قرض سے اس کی مالی اعانت کی جاتی ہے، تو پاکستان کو عوامی سرمایہ کاری کو معطل کر دینا چاہیے۔
رائٹرز کی خبر کے مطابق، فروری میں امریکی حکام نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ پاکستان کی طرف سے چین پر واجب الادا قرض کے بارے میں فکر مند ہیں۔
رائٹرز کے مطابق، امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر ڈیرک چولیٹ نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ "ہم صرف یہاں پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں چینی قرضوں، یا چین پر واجب الادا قرضوں کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن، پاکستان کو امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے نہیں کہے گا لیکن وہ اسے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے "خطرات" سے خبردار کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، پاکستان کو اس کے معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کے لیے اس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
ایسا ہی معاملہ کراچی سرکلر ریلوے کا بھی ہے جسکا تقریبا 80 فیصد اسٹرکچر تباہ پڑا ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں اور جناب شیخ رشید صاحب اسکا افتتاح بھی کرکے جاچکے اب ریل پتہ نہیں شاٸید انکی لال حویلی سے چلے گی ،انتہا یہ ہے کہ شمالی ناظم آباد میں میٹرک بورڈ آفس سے پہلے مین روڈ پر اب گرین لاٸن بس کا پروجيکٹ مکمل کرتے ہوۓ کراچی سرکلر ریلوے کے روٹ کو سرے سے نظرانداز کرے ہوۓ اس جگہ کو بند کردیا گیا ہے نہ کوٸی انڈر پاس بنایا اور نہ ہی اوور ہیڈ لاٸین لاٸن ریل کے لیۓ بچھاٸی گٸی کہ جیسے یہ ایک مردہ منصوبہ ہو
جوابتبصرے 3
یہ حکومت کا ایک عمومی رویہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عوام کے زیریں طبقات کے لیئے مسائل پیدا کر دیئے جاتے ہیں، کراچی میں گرین بس کے ٹریک پر تعمیر قریباً بیس سال سے جاری ہے اس دوران ٹریک کے اطراف کی سڑکوں کا آج تک برا حال ہے جبکہ بیشتر جگہوں پر قائم پیڈسٹرین برج بھی نکال دیئے گئے ہیں جسکی وجہ پیدل راہ گیروں کو سڑک پار کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اس کے علاؤہ گاڑیوں کو بھی طویل راستے اختیار کرنا پڑتے ہیں جو کہ غلط سمت گاڑی چلانے کے رجحان میں اضافہ کا سبب ہے، افسوس کی بات ہے کہ اسی کی دہائی کے دوران دوران قائم کیا گیا گیا ٹریفک انجینئرنگ کا شعبہ آج تک ناکام نظر آتا ہے۔
جوابتبصرے 3
پاکستان کی ترقی امریکہ اور اسکے حواریوں سے برداشت نہیی ہو رہی ہے ۔دنیا بھر میی اس طرح کے منصوبے بنتے ہیی۔تیز ترین ٹرین چلانے کے لئے پٹڑیوں پر عوام کی آمد روکنی پڑتی ہے۔ بغیر دیواروں کے موجودہ سست ٹرین کے راستے میی کتنے ہی حادثات ہوتے ہیی۔دشمن ملک ایجنڈے کاحمایتی مضمون ہے۔جاہلانہ حرکت ۔۔
جوابتبصرے 3