سلامتی

کراچی خودکش دھماکے کے بعد علیحدگی پسند گروہ کی چین کو مزید حملوں کی دھمکی

از زرک خان اور اے ایف پی

26 اپریل کو پولیس جامعہ کراچی سے منسلک کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب خودکش بم دھماکے کے بعد تباہ ہونے والی گاڑیوں کے آس پاس کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

26 اپریل کو پولیس جامعہ کراچی سے منسلک کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے قریب خودکش بم دھماکے کے بعد تباہ ہونے والی گاڑیوں کے آس پاس کی جگہ کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

اسلام آباد -- ایک پاکستانی علیحدگی پسند گروہ نے بدھ (27 اپریل) کے روز چینی اہداف پر مزید جان لیوا حملوں کے بارے میں خبردار کیا، جس سے ایک دن پہلے ایک خاتون خودکش بمبار نے چار افراد کو ہلاک کر دیا تھا – جن میں بیجنگ سے تعینات تین اساتذہ شامل تھے۔

بلوچستان لبریشن آرمی – (بی ایل اے) جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں آزادی کے لیے لڑنے والے متعدد گروپوں میں سے ایک ہے - نے منگل کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی خاتون نے اس گروپ کے لیے "اپنی قربانی" دی ہے۔

بی ایل اے کے لیے تھوڑا سا مختلف نام استعمال کرتے ہوئے، انگریزی میں شائع ہونے والے ایک بیان میں ترجمان جیاند بلوچ نے کہا، "بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کے سیکڑوں اعلیٰ تربیت یافتہ مرد اور خواتین ارکان بلوچستان اور پاکستان کے کسی بھی حصے میں جان لیوا حملے کرنے کے لیے تیار ہیں"۔

اس نے بیجنگ کو "اس سے بھی زیادہ سخت" حملوں کی دھمکی دی تاوقتیکہ پڑوسی ملک اپنے "استحصالی منصوبوں" اور " ریاستِ پاکستان پر قبضے" سے باز نہیں آتا۔

کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے گیٹ کے قریب تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور اس وقت جاں بحق ہو گئے جب بمبار نے ان کی منی بس کے ساتھ بارودی مواد کو اڑا دیا۔

بی ایل اے نے بتایا کہ بمبار کا نام شاری بلوچ تھا، اس کی عمر 30 سال تھی اوہ وہ ایک شادی شدہ عورت تھی جو آٹھ سالہ بیٹی اور چار سالہ بیٹے کی ماں تھی، اس نے مزید کہا کہ وہ ایک سائنس ٹیچر تھی جو ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کر رہی تھی۔

چینی حکومت چینی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے دنیا بھر میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کو فنڈ دیتی ہے۔

پاکستان اور امریکہ دونوں نے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے.

'بلاضرورت باہر مت نکلیں'

حکومتِ پاکستان اور اسلام آباد میں چینی سفارتی مشن باقاعدگی سے پاکستان میں چینی شہریوں کو ممکنہ حملوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد چوکس رہنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔

یونیورسٹی کے ایک سیکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس نے پہلے بھی کیمپس میں موجود 15 افراد پر مشتمل چینی عملے کی حفاظت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، "فروری میں اطلاعات سامنے آئیں کہ کیمپس پر حملہ ہو سکتا ہے۔"

جامعہ کراچی کے حکام نے 31 مارچ کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوانگ کو ایک خط لکھا، جس میں انہیں سیکیورٹی کے مسائل سے خبردار کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کے کیمپس کے دفاعی امور کے مشیر ڈاکٹر محمد زبیر کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ "چینی اساتذہ اکثر غیر ملکی اساتذہ کے گیسٹ ہاؤسز سے رینجرز اور پولیس کی حفاظت کے بغیر کیمپس کے باہر چلے جاتے ہیں۔"

کراچی میں ایک سیکیورٹی اہلکار نے کہا، "وہ [چینی شہری] آزادانہ گھومتے ہیں اور شہر کے حساس علاقوں میں حفاظتی اقدامات نہیں اپناتے اور ... وہ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں"۔

چینی وزارت خارجہ نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ملک میں تمام چینی شہریوں اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور مکمل تحقیقات شروع کرے۔

اس نے اپنے شہریوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ "سخت احتیاطی تدابیر اختیار کریں، اور بلاضرورت باہر نہ نکلیں"۔

بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے چینی شہریوں اور مفادات کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جہاں بیجنگ منافع بخش کان کنی اور توانائی کے منصوبوں میں شامل ہے۔

چین 54 بلین ڈالر کے پروگرام کے جزو کے طور پر توانائی کے روابط اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا رہا ہے جسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری کہا جاتا ہے، دونوں ممالک ان منصوبوں کو لاحق سیکیورٹی خطرات سے محتاط ہیں۔

بیجنگ کے ساتھ رنجشیں

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق، پچھلے سال کے مقابلے میں 2021 میں بلوچستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا، خاص طور پر علیحدگی پسند گروہوں کی طرف سے۔

اپریل 2021 میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں چینی سفیر کی میزبانی کرنے والے ایک پُرتعیش ہوٹل میں خودکش بم دھماکے میں چار افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے، جس کا دعویٰ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کیا تھا، میں سفیر محفوظ رہا تھا۔

گزشتہ برس جولائی میں شمال مغربی پاکستان میں ایک ڈیم کے قریب تعمیراتی مقام پر انجینئروں کو لے جانے والی ایک بس بم کی زد میں آ گئی تھی،جس میں نو چینی کارکنوں سمیت 13 افراد جاں بحق ہو گئے تھے.

حملہ، جس کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا، نے اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کشیدہ کر دیے اور بعد میں پاکستان نے جاں بحق ہونے والے چینی کارکنوں کے لواحقین کو کروڑوں روپے معاوضہ ادا کیا تھا۔

فروری میں بی ایل اے کے علیحدگی پسندوں نے بلوچستان میں نوشکی اور پنجگور کے اضلاع میں،فوجی چوکیوں پر بھی دو حملے کیے تھے.

اس وقت پنجگور میں مقیم ایک سیاسی کارکن مجتبیٰ بلوچ نے کہا تھا، "2 فروری کے حملوں، وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ چین سے چند گھنٹے قبل، کا تعلق بیجنگ کے ساتھ [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر بلوچ آبادی کی رنجشوں سے تھا۔"

خان کا دورہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے آغاز کے موقع پر ہوا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500