معاشرہ

بلوچستان میں پشتون قبائل نے شاہراہ بند کر دی اور سی پی ای سی کے خلاف احتجاج میں کام روک دیا

عبدالغنی کاکڑ

بلوچستان کے علاقہ بوستان میں پاک چین معاشی راہداری کے مغربی راستے کا ایک منظر۔ [عبدالغنی کاکڑ]

بلوچستان کے علاقہ بوستان میں پاک چین معاشی راہداری کے مغربی راستے کا ایک منظر۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ – بلوچستان میں مقامی پشتون قبائل نے اپنے خدشات کو نمایاں کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ایک کلیدی شاہراہ کو مسدود کر دیا اور تب سے بوستان کے علاقہ میں چین-پاکستان معاشی راہداری منصوبہ (سی پی ای سی) پر تعمیراتی کام روک دیا ہے۔

افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کا حامل، معدنیات سے مالامال بلوچستان، پاکستان کے چاروں صوبوں میں جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑا ہے، تاہم اس کے ستر لاکھ باشندے طویل عرصہ سے شکایت کرتے ہیں کہ انہیں اس کی گیس اور معدنیات کی دولت کا مناسب حصّہ نہیں ملتا ۔

چین 54 ارب ڈالر کے سی پی ای سی منصوبے کے تحت اس علاقہ میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے، بعید مشرقی سنکیانگ خطے اور پاکستان کی گودر بندرگاہ کے درمیان بنیادی ڈھانچے، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے روابط کو بہتر بنا رہا ہے۔

سی پی ای سی کا مغربی راستہ 293 کلومیٹر سے زائد پر محیط ہے اور طویل عرصہ سے بلوچ اور پشتون قومیت پسند جماعتوں میں خدشات پیدا کر رہا ہے۔

19 جنوری کو ضلع پشین کے علاقہ بوستان میں مقامی پشتون قبائل سے احتجاج کنندگان قومی شاہراہ این- 50 پر ایک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [فائل]

19 جنوری کو ضلع پشین کے علاقہ بوستان میں مقامی پشتون قبائل سے احتجاج کنندگان قومی شاہراہ این- 50 پر ایک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [فائل]

پشتون قبائلیوں نے اس منصوبے کے خلاف احتجاج میں 19 جنوری کو کئی گھنٹوں کے لیے این- 50 قومی شاہراہ کو مسدود کر دیا، اور منگل (25 جنوری) تک تاحال سڑک پر کام بند تھا۔

ایک مقامی قبائلی سردار، فرمان خان نے کہا، "ہمارے علاقہ میں سی پی ای سی منصوبے کے تحت ترقیاتی کام کے نام پر اربوں روپے مالیت کی زرعی اراضی برباد کی جا چکی ہیں۔"

بلوچستان میں سی پی ای سی راستے کا ایک بڑا حصہ بوستان میں خان کی زمین کے بیچ سے گزرتا ہے۔

خان نے کہا، "ہم نے ایک احتجاج کے طور پر اس بڑے ترقیاتی منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ حکومت ۔۔۔ ہمارے مسائل کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔"

انہوں نے کہا، "یہ ہمارے لیے نہایت فکر کا معاملہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ہماری سرزمین پر ایسے بڑے منصوبہ کے آغاز سے قبل مقامی قبائل کو اعتماد میں نہیں لیا۔"

انہوں نے کہا کہ پشتون قبائل سی پی ای سی کے لیے اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ "اگر حکومت پیش رفت چاہتی ہے تو اسے پہلے ہمارے علاقوں میں اس منصوبے سے متعلق ہمارے خدشات پر توجہ دینی ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہم دیگر مقامی قبائل سے رابطہ میں ہیں اور ۔۔۔ ترقیاتی کام سے متعلق اپنے خدشات کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی وضع کر رہے ہیں۔"

شدید ناانصافی

قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کچھ حصوں میں حکومت کم نرخوں پر قبائلی اراضی ضبط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بلوچستان کی سی پی ای سی کمیٹی میں پانیزئی کے علاقہ کی نمائندگی کرنے والے ملک سرور خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہم ترقی کے نام پر اپنے مفادات قربان نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے کہا، "بوستان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سی پی ای سی کے راستوں میں آنے والی اراضی مقامی پشتون قبائل کی ملکیت ہیں۔ حکومت چین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان اراضی کو کم ترین نرخوں پر خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، جو کہ نہایت ناانصافی ہے۔"

خان نے کہا کہ مذکورہ زمین کی قدر حکومت کی پیش کردہ قیمت سے 800 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم اپنے [مقامی قبائل کے] خدشات کو مدِ نظر رکھے بغیر کیے گئے تمام فیصلوں کو مسلسل مسترد کرتے رہے ہیں۔"

خان نے حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ایک طرف تو حکومت سی پی ای سی کو ملک کے معاشی استحکام کے لیے ایک گیم چینجر قرار دے رہی ہے اور دوسری طرف مقامی افراد معاشی عدم استحکام سے مزید زدپزیر ہو رہے ہیں۔"

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے علاقائی امور کے ایک تجزیہ کار، ندیم خان نے کہا، "متعلقہ حکام پشتون قبائل کی جانب سے ان کی اراضی سے متعلق اٹھائے گئے خدشات کو عمداً کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ اس قسم کی مجرمانہ غفلت معاملات کو بدتر ہی بنا سکتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "اگر حکومت سی پی ای سی کے مغربی راستے پر جاری احتجاجوں میں طاقت کا استعمال کرتی ہے تو پہلے سے بدامنی کے شکار صوبے میں صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ چونکہ قبائل مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ کسی بھی مزید تنازع کے بغیر اس معاملہ کو حل کیا جائے۔ "حکومت پاکستان میں پشتون سرزمین کی تضویری اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔"

انہوں نے کہا، "بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اپنائی جانے والی حکمتِ عملی کئی طرح سے متنازع ہے۔"

"صوبے کے ترقیاتی شعبہ میں چین کے بڑھتے ہوئے، غیر معمولی رسوخ پر بھی بلوچ اکثریتی علاقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔"

سوالات برقرار ہیں

بلوچستان میں متعدد سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے چین کے ساتھ سی پی ای سی معاہدہ سے متعلق اپنے سوالات اٹھائے ہیں۔

2013-2015 تک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے عبدل ملک بلوچ نے 5 جنوری کو کہا کہ مرکزی حکومت نے اس معاہدے سے متعلق انہیں تاریکی میں رکھنے کی کوشش کی۔

انہوں نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، "ہمیں سی پی ای سی معاہدوں سے متعلق مسلسل نظرانداز کیا گیا۔"

درایں اثناء، پاکستان کے صدر عارف علوی نے گزشتہ جمعہ کو گوادر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اس منصوبے پر ترقیاتی کام میں پیشرفت سے متعلق ایک بریفنگ لی۔

قبل ازاں— چینی رسوخ کے خلاف مقامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے— بلوچ علیحدگی پسندوں نے سی پی ای سی منصوبوں پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

گزشتہ برس گوادر میں ہونے والے احتجاجوں میں مقامی اور چینی ماہیگیر کشتیوں کی گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور سی پی ای سی منصوبوں کی جانب جانے والے راستوں پر سیکیورٹی ناکوں پر مقامی افراد کو حراساں کیے جانے کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا۔

جماعتِ اسلامی پاکستان کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الرّحمٰن کی قیادت میں احتجاج کنندگان نے پانی اور بجلی کی کمی کے خاتمہ کا بھی مطالبہ کیا اور چین کی مالیات کے منصوبوں کو سی پی ای سی مخالف علیحدگی پسند بلوچوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے گوادر میں ممکنہ طور پر باڑ لگائے جانے کی مخالفت کا بھی اظہار کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پشتونوں اور بلوچوں کو اس خطے میں پنجاب کی نوآبادی بننے سے روکنے کے لیے اکٹھے کام کرنا ہو گا۔ ان دو عظیم قوموں کو پہلے پرامن طور پر پنجاب کی نوآبادی کو روکنا ہو گا، اور اگر یہ پرامن طور پر نہ ہو سکے تو انہیں پنجابیوں کو پنجاب اور چپٹے ناکوں والے چینیوں کو چین کی جانب دھکیلنے کے لیے ہتھیار اٹھانے چاہیئں۔

جواب