سلامتی

پاکستان نے امریکہ کی طرف سے بی ایل اے کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کو خوش آمدید کہا ہے

عبدل غنی کاکڑ

پاکستانی فوج کے سپاہی، 23 نومبر 2018 کو کراچی میں ایک حملے کے بعد، چین کے سفارت خانے کے باہر چل رہے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ [آصف حسن /اے ایف پی]

پاکستانی فوج کے سپاہی، 23 نومبر 2018 کو کراچی میں ایک حملے کے بعد، چین کے سفارت خانے کے باہر چل رہے ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ [آصف حسن /اے ایف پی]

کوئٹہ -- پاکستانی راہنماؤں اور حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو حال ہی میں ایک بین الاقوامی دہشت گرد گروہ قرار دیا جانا، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 2 جولائی کو اپنی نامزدگی میں کہا کہ بی ایل اے "ایک مسلح علیحدگی پسند گروہ ہے جو زیادہ تر پاکستان کے بلوچ نسل کے علاقوں میں سیکورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتا ہے"۔

پاکستان 2004 سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے جنگ کر رہا ہے۔ 2006 میں، حکومت نے بی ایل اے کو کالعدم تنظیم قرار دیا تھا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ "اس تنظیم نے گزشتہ سال بہت سے دہشت گردانہ حملے کیے ہیں جن میں اگست 2018 میں ہونے والا خودکش حملہ جس میں بلوچستان میں چینی انجنیرؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، نومبر 2018 میں کراچی میں چین کے سفارت خانے پر ہونے والا حملہ اور مئی 2019 میں گوادر میں ایک پرتعیش ہوٹل پر ہونے والا حملہ شامل ہیں۔

اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں بی ایل اے کے سابقہ راہنما اسلم بلوچ (بائیں) جو استاد اچھو کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں اور ان کے جانشین بشیر زیب بلوچ نظر آ رہے ہیں۔ [بہ شکریہ عبدل غنی کاکڑ]

اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں بی ایل اے کے سابقہ راہنما اسلم بلوچ (بائیں) جو استاد اچھو کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں اور ان کے جانشین بشیر زیب بلوچ نظر آ رہے ہیں۔ [بہ شکریہ عبدل غنی کاکڑ]

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس قدم کو خوش آمدید کہا ہے۔

دفترِ خارجہ نے 2 جولائی کو ایک بیان میں کہا کہ "امید ہے کہ اس نامزدگی سے بی ایل اے کی طرف سے کام کرنے کی جگہ کو کم سے کم کرنا یقینی بنایا جا سکے گا"۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "یہ بات اہم ہے کہ مجرموں، تنظیم کاروں، سرمایہ فراہم کرنے والوں اور بیرونی سپانسروں کو جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ان کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، کو ذمہ دار قرار دیا جائے اور انہیں سزا دی جائے"۔

دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ اولین ترجیح ہے

اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریجک اسٹڈیز میں پاکستان چائنا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ "بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دیے جانے کی پاکستان کے انتہائی اہمیت ہے اور اس سے ہماری اس وضاحت کو انتہائی زیادہ فائدہ ملے گا کہ بیرونی عناصر بی ایل اے سے متعلقہ عسکریت پسند گروہوں کو ہماری زمین پر دہشت گردی پھیلانے کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "امریکہ کے اس فیصلے کا ہر طبقے نے پرجوش خیرمقدم کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان پائیدار امن پر یقین رکھتا ہے۔ اپنی سر زمین پر کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنا ہماری قومی سیکورٹی پالیسی کی اولین ترجیح ہے"۔

شبیر نے کہا کہ پاکستان ان ممالک کی طرف سے جنہیں بی ایل اے کے راہنماؤں کی طرف سے پناہ کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں "ایک ہمدردانہ فیصلے" کا انتظار کر رہا ہے۔

پاکستان بلوچ اتحاد نامی تنظیم کے وائس چیرمین میر خدا بخش مری نے کہا کہ "یہ بہت اہم پیش رفت ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمارا سب سے اہم اتحادی، امریکہ، اب بی ایل اے کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھتا ہے"۔

مری نے کہا کہ "اس فیصلے سے پاکستان کی قومی سیکورٹی کے مفادات کے لیے امریکہ کے عہد پر عوام کا اعتماد بحال ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ "بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا باقی کے سارے ملک میں پرجوش خیرمقدم کیا گیا ہے اور بلوچستان کے شہریوں نے اس فیصلے کی تعریف کی ہے کیونکہ بی ایل اے نے بلوچ قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے نام تلے لڑنے والے عسکریت پسند، بڑے پیمانے کے قاتل ہیں جنہوں نے حقوق کی نام نہاد جنگ کے دوران ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

مری نے کہا کہ "جو لوگ بی ایل اے کو چلا رہے ہیں اور مدد فراہم کر رہے ہیں وہ علاقے میں امن کے دشمن ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "بی ایل اے ہمارے قومی اتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے اور باقی کے ملک میں امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ یہ گروپ ہمارے دشمنوں کی پراکسی ہے اس لیے اسے زیادہ تر بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے"۔

پاکستان - امریکہ تعلقات کو بہتر بنانا

حکام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد گروہ قرار دینا پاکستان اور امریکہ کے درمیان، علاقے میں امن کی کوششوں سے پہلے، تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر دفاعی اہلکار مزمل قاضی نے کہا ہے کہ "بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا، امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اہم پیش رفت ہے۔ یہ یقینی طور پر علاقے میں بی ایل اے کی عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے میں نتیجہ خیز قدم ثابت ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ "بلوچستان میں بی ایل اے کا مرکزی ہدف بیرونی سرمایہ کاری ہے ۔۔۔ اور اس گروپ نے ماضی میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے خلاف ملک میں بہت سے حملے کیے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "اس نامزدگی سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی اور بیرونِ ملک سے بی ایل اے اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں کو ملنے والی پاکستان مخالف مدد میں اہم کردار ادا کرے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے موقف کی امریکی امداد سے پاکستان امریکہ کے تعلقات میں موجود عدم اعتماد کا خاتمہ ہو جائے گا"۔

قاضی نے کہا کہ "بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دیا جانا ان عناصر کے لیے بڑا دھچکا ہے جو اپنے نام نہاد حقوق کی آڑ میں امن مخالف ایجنڈا چلا رہے ہیں"۔

علاقے میں امن کی تلاش

اسلام آباد کے سینٹر انوار الحق نے کہا کہ "پاکستان مخالف بلوچ عسکریت پسندوں نے اپنی مسلح تحریک کو قانونی قدم، بنانے کی پوری کوشش کی مگر وہ اپنی عسکریت پسندی کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بنیادی طور پر ہمارے اس موقف کو تسلیم کیا جانا ہے کہ دشمن بیرونی زمین سے ہمارے ملک میں جنگ چھیڑ رہا ہے۔ بی ایل اے قتلِ عام کرنے والا گروہ ہے اور پاکستان نے اس دہشت گرد گروہ کی عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام کوششیں کی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تفہیم سے "علاقے میں دیرپا امن کے مقصدکو فائدہ پہنچے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی بنا لی جائے جو علاقائی امن کو تباہ کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیشہ ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ وباء ہمارے علاقے میں امن کے عمل کو بری طرح متاثر کر رہی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500