سلامتی

اسلام آباد نے پاکستان میں نجی سیکیورٹی کمپنی کے لیے چینی کوشش مسترد کر دی

زرق خان

اپریل میں ایک مشق کے دوران چینی فوجی۔ [چینی وزارتِ دفاع]

اپریل میں ایک مشق کے دوران چینی فوجی۔ [چینی وزارتِ دفاع]

اسلام آباد – گزشتہ ہفتے پاکستان نے بیجنگ کی جانب سے پاکستان کے علاقۂ عملداری میں ایک نجی چینی سیکیورٹی کمپنی چلانے کی اجازت دیے جانے کی درخواست مسترد کر دی۔

اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ کے ایک عہدیدار نے کہا، ”چین کی وزارتِ قومی سلامتی نے درخواست کی کہ ایک چینی سیکیورٹی کمپنی کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) کے پاکستانی جزُ ، چین-پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) سے متعلقہ چینی شہریوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے پاکستان میں اپنا دفتر قائم کرنے اور امور سرانجام دینے کی اجازت دی جائے۔“

بی آر آئی، ایک پٹی ایک سڑک (او بی او آر) کے نام سے بھی معروف ہے۔

وزارت نے یہ کہتے ہوئے اس درخواست کو مطلقاً مسترد کر دیا کہ کوئی دوسرا ملک پاکستان میں سیکیورٹی کمپنی نہیں کھول سکتا۔

تھرپارکر میں سی پی ای سی سے منسلک کوئلے کی کان کنی کے منصوبے کی جون 2020 میں لی گئی ایک فائل فوٹو۔ [زرق خان]

تھرپارکر میں سی پی ای سی سے منسلک کوئلے کی کان کنی کے منصوبے کی جون 2020 میں لی گئی ایک فائل فوٹو۔ [زرق خان]

18 مئی کو پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ چین کی وزارتِ خارجہ کے شعبۂ امورِ خارجی سلامتی کے کاؤنسلر وانگ ڈاکسوئے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ثناءاللہ نے وانگ کو بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے پاکستان میں تمام غیر ملکی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فارن نیشنل سیکیورٹی سیل قائم کر رکھا ہے۔ [بشکریہ ریڈیو پاکستان]

18 مئی کو پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ چین کی وزارتِ خارجہ کے شعبۂ امورِ خارجی سلامتی کے کاؤنسلر وانگ ڈاکسوئے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ثناءاللہ نے وانگ کو بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے پاکستان میں تمام غیر ملکی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک فارن نیشنل سیکیورٹی سیل قائم کر رکھا ہے۔ [بشکریہ ریڈیو پاکستان]

حکام کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے نہ صرف قانونِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ملک کی سلامتی پر بھی سمجھوتہ ہو گا۔

پاکستانی سلامتی کو کور کرنے والے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ایاز سید نے تصدیق کی کہ چین نے پاکستان میں کام کرنے والی ایک چینی سیکیورٹی کمپنی قائم کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر اسلام آباد سے اجازت طلب کی ہے۔

انہوں نے 15 جون کو ٹویٹ کیا، ”باوثوق ذرائع نے مجھے بتایا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے پاکستان میں کام کرنے کے لیے چینی سیکیورٹی کمپنی کو اجازت دینے پر اعتراض کیا ہے۔“

بیجنگ کی درخواست سے روس کے ویگنر گروپ جیسا خطرہ پیدا ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہے ۔

روس کی نجی سیکیورٹی کارپوریشن (پی ایس سی) سب سے پہلے 2014 میں یوکرین میں نمودار ہوئی۔

تب سے اس کے کرائے کے سپاہی شام، موزمبیق، سوڈان، وینیزویلا، لیبیا، وسط ایشیائی جمہوریہ، مالی اور چاڈ سمیت دنیا بھر میں تنازعات میں ملوث ہیں۔

ان کرائے کے سپاہیوں پر یوکرین، مالی، لیبیا اور شام سمیت تقریباً ہر اس میدانِ جنگ میں جنگی جرائم کا الزام ہے، جہاں یہ تعینات ہیں۔

ایک کراچی اساسی پی ایس سی کے ڈائریکٹر سعید عزیز نے کہا، ”پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور اسے کسی دوسرے ملک کو اپنی [پی ایس سی] کھولنے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔“

عزیز نے کہا، ”پاکستان میں چینی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے، چینی [پی ایس سیز] کی تعیناتی ملک، بطورِ خاص بلوچستان، میں سیکیورٹی صورتِ حال کو مزید ابتر کر دے گی۔“

سیکیورٹی خدشہ

برلن، جرمنی میں میرکاٹر ادارہ برائے علومِ چین کی 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق، چین کی بیرونِ ملک کام کرنے والی پی ایس سیز بین الاقوامی یا مقامی قوانین کا کم ہی احترام کرتی ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا، ”سیکیورٹی کے شعبہ کو ضابطہ میں لانے والی چینی قوانین صرف داخلی سرزمین کو ہی کور کرتے ہیں۔ اور بین الاقوامی قوانین پی ایس سیز کے بارے میں مبہم ہیں، اگرچہ یہ تنازعات کے وقت میں نجی سیکیورٹی فرمز کو کور کرتے ہیں۔“

تحقیق میں مزید کہا گیا، ”ضوابط کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ چینی پی ایس سیز کو چین سے لائسنس لینے کی ضرورت نہیں (تاہم انہیں میزبان ملک سے درکار ہو سکتا ہے)۔“

”اس سے یہ خدشہ رہتا ہے کہ چھوٹی، غیر مستند کمپنیاں اپنے تجربہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں اور بیرونِ ملک ایسے یونٹ قائم کر لیں جو تشہیر شدہ خدمات فراہم کرنے کی اہلیت کے حامل نہ ہوں۔“

”مزید برآں اسلحہ سے متعلق نرم ضوابط والے ممالک میں چینی پی ایس سیز باسانی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔“

درایں اثنا پاکستان بیجنگ کے خدشات سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی میں پہلے ہی اضافہ کر رہا ہے۔

15 جون کو ڈان نے خبر دی کہ اسلام آباد میں تمام غیر ملکی شہریوں، بطورِ خاص چینی شہریوں کی سلامتی کے سلسلہ میں معاونت کے لیے تشکیل دیے گئے فارن نیشنل سیکیورٹی سیل نے صدرمقام میں مقیم چینی شہریوں سے کہا کہ وہ اپنی حرکت سے قبل پولیس کو مطلع کریں۔

ریڈیو پاکستان نے خبر دی کہ قبل ازاں 18 مئی کو پاکستانی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے چینی وزارتِ خارجہ کے شعبۂ خارجی سلامتی امور کے کاؤنسلر وانگ ڈاکسوئے کو بتایا کہ پاکستان ملک میں چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔

ثنااللہ نے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران وانگ کو فارن نیشنل سیکیورٹی سیل کے قیام سے متعلق آگاہ کیا۔

چین مخالف رائے میں اضافہ

بیجنگ نے حالیہ برسوں میں اسلام آباد کے ساتھ متعدد کثیر بلین ڈالر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر دستخط کیے ہیں۔

تاہم ان معاہدوں نے مقامی رہائشیوں میں چینی رسوخ سے متعلق خدشات اور کمپنیوں کی مزدوروں سے متعلق معمول، بطورِ خاص چینی شہریوں کو پاکستانی کارکنان سے زیادہ تنخواہ دیے جانے پر غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخنے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو دیگر کے ساتھ الحاق کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ متحدہ گروہ خطے میں پرتشدد سرگرمیاں کرے گا۔

ایک اسلام آباد اساسی تھنک ٹینک پاک ادارہ برائے علومِ امن کے مطابق، 2021 میں بلوچستان میں گزشتہ برس کے مقابلہ میں دہشتگرد حملوں میں 93 فیصد اضافہ سامنے آیا جو زیادہ تر علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے تھے۔

ماہرین نے صوبہ میں نسلی شورش میں حالیہ اضافہ کے پیچھے بنیادی وجہ چینی سرمایہ کاری اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنانے کے لیے بلوچ راجی اجوئی سانگر (بی آر اے ایس) عسکریت پسند گروہ کے قیام کو قرار دیا۔

اپریل کے اواخر میں بی آر اے ایس کے ایک رکن بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں کنفوشس انسٹیٹیوٹ پر خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

تین چینی اساتذہ سمیتچار افراد جاںبحق ہوئے۔

بی ایل اے کے علیحدگی پسندوں نے فروری میں بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر دہرے حملے کیے ۔

پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی فعالیت پسند مجتبیٰ بلوچ نے اس وقت کہا، ”وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ چین سے چند گھنٹے قبل 2 فروری کے حملے بیجنگ کی جانب سے [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر صوبہ بلوچستان کے عوام کی ناراضگی سے منسلک تھے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500