معیشت

بلوچستان کے مکینوں کا تانبے اور سونے کی کان کنی کے لیے غیر چینی فرم کے انتخاب کا خیرمقدم

از زرک خان

وزیر اعظم عمران خان 20 مارچ کو اسلام آباد میں کینیڈا کی مقامی بیریک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی اینٹوفگاسٹا کے حکام کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ [پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا دفتر]

وزیر اعظم عمران خان 20 مارچ کو اسلام آباد میں کینیڈا کی مقامی بیریک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی اینٹوفگاسٹا کے حکام کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ [پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا دفتر]

اسلام آباد -- پاکستان اور ایک غیر ملکی کان کن کنسورشیم کے درمیان ریکوڈک تانبے اور سونے کی کان کو بحال کرنے کے معاہدے کو شورش زدہ صوبے بلوچستان میں امن او مان کی صورتحال کے لیے ایک مثبت پیشرفت کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔

مقامی باشندے کنسورشیم میں چینی کمپنی کی کمی کا خیرمقدم کرتے ہیں، کیونکہ بیجنگ کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی)کے تحت ماضی کے سرمایہ کاری کے منصوبوں نے احتجاج اور بدامنی کو ہوا دی ہے۔

کنسورشیم ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) -- جس میں کینیڈا کی فرم بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹوفگاسٹا منرلز ہر ایک پر 37.5 فیصد کنٹرول کرتی ہے – نے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر دریافت کیے تھے۔

لیکن انتہائی منافع بخش اوپن پٹ مائن پروجیکٹ 2011 میں اس وقت رک گیا جب مقامی حکومت نے ٹی سی سی کی لیز کی تجدید سے انکار کر دیا، اور سنہ 2013 میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔

ماہی گیر 15 فروری کو گوادر میں اپنی کشتیاں تیار کرتے ہوئے۔ مقامی رہائشی باقاعدگی سے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں بی آر آئی منصوبے کی طرف جانے والی حفاظتی چوکیوں پر ہراساں کیے جانے اور مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

ماہی گیر 15 فروری کو گوادر میں اپنی کشتیاں تیار کرتے ہوئے۔ مقامی رہائشی باقاعدگی سے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں بی آر آئی منصوبے کی طرف جانے والی حفاظتی چوکیوں پر ہراساں کیے جانے اور مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

2019 میں، عالمی بینک کی ثالثی ٹریبونل کمیٹی نے کان کنی کے غیر قانونی انکار پر پاکستان پر 5.8 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔

ایک دہائی طویل قانونی جنگ کے بعد، پاکستانی حکام نے اتوار (20 مارچ) کو بیرک گولڈ کے ساتھ ماورائے عدالت تصفیے کا اعلان کیا۔

پراجیکٹ کی تشکیل نو پر، بیرک گولڈ کے پاس 50 فیصد، پاکستانی وفاقی حکومت کے اداروں کے پاس 25 فیصد اور حکومتِ بلوچستان کے پاس 25 فیصد حصہ ہو گا۔

وزیر اعظم عمران خان کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ بیرک بلوچستان میں تقریباً 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی اور 8000 سے زائد ملازمتیں پیدا کرے گی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ تقریباً 1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سڑکوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر اور خطے میں کان کنی کے لیے تکنیکی تربیتی ادارے بنانے پر خرچ کی جائے گی۔

معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں شریک ہونے والے خان نے ٹویٹ کیا کہ منصوبہ "ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان ہو گی۔"

انہوں نے کہا، "یہ ہمیں قرضوں سے نجات دلائے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔"

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ یہ تاریخی منصوبہ بلوچستان کی ترقی اور بڑھوتری میں مدد دے گا، اور شورش کے خاتمے میں معاون ثابت ہو گا۔

انہوں نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "پاکستان، خصوصاً بلوچستان، اس منصوبے سے 100 سال سے زیادہ عرصے تک فائدہ اٹھائے گا اور کل مالیت کا تخمینہ 100 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔"

بلوچستان -- جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں -- قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجود ملک کا سب سے بڑا اور کم ترقی یافتہ خطہ ہے۔

پاکستان سنہ 2003 سے اس صوبے میں اسلام پسند، علیحدگی پسند اور فرقہ وارانہ گروہوں کی جانب سے نچلی سطح کی شورش کا مقابلہ کر رہا ہے۔

باغی گروہ بنیادی طور پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن سنہ 2015 میں صوبے میں بی آر آئی کی آمد کے ساتھ ہی، انہوں نے چینی سرمایہ کاری کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

چینی کمپنیوں کے غیر انسانی طرزِ عمل پر احتجاج

بیجنگ نے حالیہ برسوں میں اسلام آباد کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے معاہدے کیے ہیں۔

لیکن ان معاہدوں نے مقامی باشندوں میں چینی اثر و رسوخ اور کمپنیوں کے مزدوری کے طریقوں، خاص طور پر چینی شہریوں کو پاکستانی کارکنوں سے زیادہ ادائیگیوں پر ناراضگی کے بارے میں تشویش پیدا کی ہے۔

مثال کے طور پر، سیندک تانبے اور سونے کی کان میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ (ایم سی سی) کو سنہ 2001 سے لیز پر دی گئی ہے۔

سیندک اور ریکوڈک دونوں ضلع چاغی، بلوچستان میں واقع ہیں۔

فروری کے آخر میں کئی دنوں کے عرصے میں، مقامی ملازمین کے خلاف غیر انسانی کارروائیوں اور سڑکوں، اسکولوں اور دکانوں کی بندش کے لیے رہائشیوں نے خواتین کی زیرِ قیادت ایم سی سی کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاج میں حصہ لینے والی ایک گھریلو خاتون زلیخا نے کہا، "چینی کمپنی نے مقامی رہائشیوں اور ملازمین کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔"

اس کے شوہر، سیندک کے ایک کان کن، کو کورونا وائرس وبائی مرض سے منسلک احتیاطی تدابیر کے نام پر پچھلے چھ ماہ سے گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے مقامی رہائشیوں کو علاج کے لیے شاید سیندک ہسپتال بھی نہ جانے دیا جائے۔

گوادر میں، جہاں گہرے پانی کی بندرگاہ کا منصوبہ بی آر آئی کا ایک پرچم بردار منصوبہ ہے، اکثر احتجاج نے حفاظتی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے اور مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے مقامی ماہی گیروں کو ان کے روزگار سے محروم کیا جاتا ہے۔

جنوری 2021 میں، ایک صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو گوادر میں بندرگاہ کے ارد گرد خاردار باڑ لگانے سے روک دیا تھا جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے ضلع کے 300,000 سے زائد مکینوں کی نقل و حرکت پیچیدہ ہو جائے گی اور ماہی گیروں کو سمندری رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا۔

چینی سرمایہ کاری عسکریت پسندی کو ہوا دے رہی ہے

سیاسی رہنماؤں اور دفاعی تجزیہ کاروں نے ریکوڈک کان کنی کے منصوبے پر ٹی سی سی کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کو سراہا اور کہا کہ غیر چینی کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہونے سے حکومت کو اس شورش کو روکنے میں مدد ملے گی جو چینی سرمایہ کاری سے ہوئی ہے۔

گوادر کے مکین سول سوسائٹی کے کارکن، بشیر ہوت نے کہا، "چاغی اور گوادر جیسے علاقوں کو تجارت کا مرکز بنانے اور مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے.... چینی کمپنیاں پاکستانی حکام کو ان علاقوں کو سیکیورٹی زون بنانے اور رہائشیوں کی نقل و حرکت محدود کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "چینی کمپنیاں مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں اور ان کے اقدامات سے مقامی آبادی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے۔"

ہوت نے کہا کہ اسلام آباد کو بیجنگ کی طرف رخ کرنے کے بجائے یورپی اور شمالی امریکہ کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے چاہیئیں جو مقامی آبادی کا احترام کرتی ہیں، مزدوروں کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں اور جن علاقوں میں وہ کام کرتی ہیں وہاں ترقیاتی منصوبے انجام دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عوام کی رضامندی کے بغیر چینی سرمایہ کاری صوبے کی امن و امان کی مجموعی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر ناراضگی نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، اس تشویش کو ہوا دیتے ہوئے کہ مشترکہ گروپ خطے میں پُرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔

جولائی 2020 میں بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس)، جو چار بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا اتحاد ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ براس اور سندھودیش انقلابی آرمی، اب خطے کے موجودہ منظر نامے کی روشنی میں "ایک ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ دونوں [بلوچ اور سندھیوں] کو بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر شدید تحفظات ہیں۔

کوئٹہ میں مقیم قانون نافذ کرنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "چینی سرمایہ کاری اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے براس کی تشکیل صوبے میں نسلی شورش میں حالیہ اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔"

2 فروری کو،کالعدم علیحدگی پسند گروپ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے فوجی چوکیوں پر جڑواں حملے کیے تھے بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں.

پنجگور سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن مجتبیٰ بلوچ نے کہا، "2 فروری کے حملوں کا تعلق، وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ چین سے کچھ گھنٹے قبل [ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر]، بیجنگ کی جانب سے [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر بلوچ آبادی کی شکایات سے تھا۔"

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق، سنہ 2021 میں، بلوچستان میں دہشت گردی کے حملوں میں، خصوصاً علیحدگی پسند گروہوں کی طرف سے، پچھلے سال کے مقابلے میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

20 اگست کو بی ایل اے کے ایک خودکش بمبار کی جانب سے گوادر میں چینی شہریوں پر حملے میں دو بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بلوچوں اور بلوچستان کا مسئلہ صرف چین کے ساتھ نہیں۔ اگرچہ چین کا نظام فی الحقیقت جابرانہ اور غیر منصفانہ ہے، تاہم بلوچوں کا مسئلہ پاکستان سے ہے۔ پاکستان نے بلوچستان کے عوام کے قدرتی وسائل پر دست اندازی کی ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس بے دردی سے بلوچ نوجوانوں کو قتل کرتی ہے۔ پاکستان کی دہشتگرد فوج معصوم بلوچوں کو ہوائی جہازوں سے گرا دیتی ہے اور ان پر مختلف طریقوں سے تشدد کرتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیئے کہ بلوچوں کے خلاف بربریت روکنے اور بلوچوں کی دولت اور معدنیات کی لوٹ مار روکنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ جو معاہدے کیے جا رہے ہیں وہ پاکستان، جو پنجاب کا دوسرا نام ہے، کے بجائے براہِ راست بلوچستان سے کیے جائیں۔ ان کمپنیوں میں بلوچستان کے اصل باسییوں، بلوچوں اور پشتونوں کو ملازمتیں دی جائیں، نہ کہ پنجابیوں کو۔

جواب