گوادر -- صوبہ بلوچستان کے شہری اور مقامی سیاسی جماعتوں کے ارکان نے، گوادر جو کہ صوبہ کی مرکزی بندرگاہ ہے، کے کچھ حصوں کو باڑ لگا کر بند کرنے کے منصوبے کے خلاف، عارضی فتح حاصل کی ہے مگر ابھی بھی یہ تشویش موجود ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو کر رہے گا۔
مقامی افراد، باڑ کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ اس سے گوادر ڈسٹرکٹ کے 300,000 سے زیادہ شہریوں کی نقل و حرکت پیچیدہ ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ماہی گیروں کے ان معمول کے مقامات کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے وہ سمندر تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ باڑ، چین کے کارکنوں کو مقامی عداوت، جس میں دہشت گردی کے کام بھی شامل ہیں، سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔
چین کی حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی خبروں کی ویب سائٹ گوادر پرو کے مطابق، اگر باڑ کو تعمیر کر دیا گیا تو "داخلے اور اخراج کے تین سے چار راستے ہوں گے"۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نامعلوم اہلکار نے دسمبر میں گوادر پرو کو بتایا تھا کہ گوادر میں چینی کارکن "معمول کی زندگی کے حق دار ہیں جو ہر قسم کے خطرات سے پاک ہو"۔
صوبائی وزیرِ داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے 29 دسمبر کو مطالبہ کیا کہ مقامی آبادی کی رائے کو نظر میں رکھا جائے۔
انہوں نے گوادر میں ایک کھلی میٹنگ میں کہا کہ "مقامی افراد کو، گوادر کے بارے میں فیصلے کرنے سے دور نہیں رکھا جائے گا اور اب باڑ لگانے کے بارے میں فیصلہ، مقامی افراد کو اس معاملے میں اعتماد میں لیے جانے کے بعد ہی کیا جائے گا"۔
ڈان نے خبر دی ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں سیاسی جماعتوں کے راہنما اور کارکن بھی شامل ہیں، نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور اس باڑ کے بارے میں اپنے تحفظات کو ظاہر کیا۔
لانگو نے کہا کہ باڑ لگانے کے منصوبے کا مقصد سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دینا تھا کہ گوادر محفوظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ بندرگاہ کے شہر کو بچانے کا منصوبہ ہے اور کچھ نہیں"۔
متنازعہ باڑ
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بندرگاہ کے گرد خاردار باڑ لگانے کا متنازعہ منصوبہ، عوامی مخالفت پر روک دیا گیا ہے، مگر توقع ہے کہ آخرکار یہ مکمل ہی ہو گا کیونکہ یہ منصوبہ گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کا حصہ ہے۔
مقامی حکومت نے دسمبر کے وسط میں بندرگاہ کے گرد 24 مربع کلومیٹر کے علاقے کے گرد باڑ لگانا شروع کر دی تھی بظاہر اس کا مقصد ان منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کا حصہ ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے، چینی منصوبوں کے خلاف مقامی آبادی کی بڑھتی ہوئی ناراضگی سے کھیلتے ہوئے، بی آر آئی کی بہت سی جگہوں پر حملے کیے ہیں۔
بیجنگ مقامی وسائل کا استحصال کر رہا ہے اور اسے اس بارے میں کوئی تشویش نہیں ہے کہ اس کے کاموں کا مقامی آبادی پر کیا اثر ہو گا۔ یہ بات پاکستانی قانون سازوں اور مشاہدین نے کہی۔
پاکستانی شہری، چین کی طرف سے چینی کارکنوں کو پاکستانی کارکنوں کے مقابلے میں، زیادہ پیسے دینے کے طریقہ کار کے خلاف بھی ہیں۔
ماہی گیر اور شہری راہنما، بشیر ہوت جنہوں نے 27 دسمبر کو گوادر میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت بھی کی تھی، کہا کہ "چینی منصوبوں اور شہریوں کے نام پر، گوادر کے گرد باڑ لگانے نے، مقامی شہریوں کو ناراض کیا ہے اور حکومت کے قدم کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج نے جنم لیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "شہریوں کو خطرہ ہے کہ باڑ لگانے سے وہ بے گھر ہو جائیں گے اور اس کے نتیجہ میں شہر کی مردم نگاری تبدیل ہو جائے گی"۔
بلوچستان کے سابقہ وزیراعلی عبدل ملک بلوچ نے کہا کہ حکومت کو باڑ لگانے کے منصوبے کو ترک کر دینا چاہیے کیونکہ اسے سخت سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا"۔
انہوں نے کہا کہ "باڑ لگانے کے منصوبے کا مقصد بندرگاہ کے شہر کو تقسیم کرنا اور آخیر میں گوادر کے ساحل کو بلوچستان سے الگ کرنا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ باڑ لگانے سے گوادر کے شہریوں کی نقل و حرکت محدود ہو جائے گی اور انہیں شہر چھوڑ کر کہیں اور جا کر آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
سینٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا باڑ لگانا "گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنے کی ایک سازش تھی"۔
بلوچستان بار کونسل جو کہ صوبہ کا اہم قانونی ادارہ ہے، کے وائس چیرپرسن منیر احمد کاکڑ، نے دسمبر کے آخیر میں اس منصوبے کو روکنے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ باڑ لگانے کی پہل کاری سے گوادر ڈسٹرکٹ کے 300,000 سے زیادہ شہری منفی طور پر متاثر ہوں گے۔
"انہوں نے کہا کہ "آدھی آبادی باڑ کے اندر ہو گی اور آدھی باہر ہو گی۔ اس سے طلباء کی تعلیم، ہسپتال جانے والے مریضوں کی نقل و حرکت متاثر ہو گی اور سب سے اہم بات یہ کہ اس سے ماہی گیروں کی سمندر تک رسائی رک جائے گی"۔
شہریوں کی زندگیوں پر اثرات
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بی آر آئی سے متعلقہ منصوبوں نے، گوادر کے شہریوں کی زندگیوں کو بہتر نہیں بنایا ہے اور نہ ہی انہوں نے طویل عرصے سے موجود، پانی اور بجلی کی کمی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کی ہے۔
گوادر کے ایک طالب علم اشرف علی نے کہا کہ "گوادر کو کاروبار اور تجارت کا گڑھ بنانے اور شہریوں کے لیے ترقیاتی منصوبے تخلیق کرنے کی بجائے، چین پاکستانی حکام کو مجبور کرتا رہا ہے کہ وہ بندرگاہ کے شہر کو ایک سیکورٹی زون بنائے اور مقامی شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرے"۔
انہوں نے کہا کہ "گوادر کے لوگوں کو ابھی بھی 2,500 روپے (15.50 ڈالر) فی ٹینکر پر پینے کا پانی خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے"۔
کوئٹہ کے رفیع اللہ کاکڑ جو کہ عوامی پالیسی اور ترقیاتی ماہر ہیں، نے کہا کہ "گوادر کے گرد باڑ لگانے سے بلوچستان میں محرومی اور پسماندگی کا احساس یقینی طور پر بڑھے گا۔
انہوں نے 26 دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم میں لکھا کہ "سیکورٹی کے اداروں کو اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ خالی ایک سخت طریقہ کار سے، زیادہ سے زیادہ ایک جزوی اور عارضی امن ہی یقینی بن سکتا ہے اور نچلے درجے پر عسکریت پسندی غیر معینہ عرصے تک جاری رہے گی، خواہ سیکورٹی کے لیے کتنے ہی اقدامات کیوں نہ کیے جائیں"۔
نسلی شورش پر تشویش
بلوچستان اور سندھ میں چین کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ، عوام میں بے چینی کا باعث بننا جاری رکھے ہوئے ہے۔
بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر غصے نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسندوں کو متحد ہونے پر متحرک کیا ہے، جس سے علاقے میں ایک نئے تشدد کے شروع ہو جانے کے امکان پر تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
بلوچ راجی اجوئی سانگڑ (بی آر اے ایس) اور سندھو دیش انقلابی فوج اب "علاقے میں موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں" مل کر کام کر رہی ہیں کیونکہ سندھیوں اور بلوچ دونوں کو ہی، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر شدید تحفظات ہیں۔ یہ بات بی آر اے ایس نے گزشتہ جولائی میں ایک بیان میں بتائی تھی۔
بلوچ نژاد علیحدگی پسند گروہوں نے حالیہ سالوں میں، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور چینی کارکنوں کو متعدد بار نشانہ بنایا ہے۔
کراچی میں، عسکریت پسندوں نے چینی کونسلیٹ پر نومبر 2018 میں حملہ کیا اور چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ گزشتہ جون میں، چار دہشت گردوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینچ، جو کہ کراچی میں واقع ہے، پر حملہ کیا اور تین سیکورٹی گارڈز اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا۔
بلوچستان لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ چینی کنسورشیم پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کے 40 فیصد کا مالک ہے۔