کاروبار

سونے کی کان میں غبن کے الزامات بیجنگ کے ساتھ یکطرفہ معاہدوں کو نمایاں کرتے ہیں

زرق خان

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے اندر ریگستان میں، اسلام کوٹ کے مقام پر موجود کان کنی کے مقام پر، ٹرک 2018 میں مٹی لے کر جا رہے ہیں۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے اندر ریگستان میں، اسلام کوٹ کے مقام پر موجود کان کنی کے مقام پر، ٹرک 2018 میں مٹی لے کر جا رہے ہیں۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

اسلام آباد -- ایک چینی سرکاری ادارے نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں، سیندک کاپر گولڈ مائن پروجیکٹ میں، 7 ارب پاکستانی روپے (26 ملین امریکی ڈالر) سے زیادہ کا غبن کیا ہے۔ یہ بات ایک قانون ساز نے حال ہی میں صوبائی پارلیمنٹ کو بتائی۔

اس انکشاف نے، اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ طے پانے والے یکطرفہ معاہدوں کے بارے میں ایک بحث کو جنم دیا۔

ضلع چاغی سے منتخب ہونے والے صوبائی پارلیمنٹ کے رکن محمد عارف محمد حسنی نے کہا کہ چینی ادارے، صوبے کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں اور انہوں نے بغیر کسی احتساب کے لاکھوں ڈالر کا غبن کیا ہے۔

حسنی نے گزشتہ ہفتے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا کہ "بلوچستان حکومت چینی اداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے بیجنگ ناراض ہو جائے گا اور اس سے پاک چین تعلقات متاثر ہوں گے۔"

پاکستان کے سیکیورٹی اہلکار، 11 اگست 2018 کو دالبندین کے علاقے میں خودکش حملے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ حملے میں اس بس کو نشانہ بنایا گیا جو ایسے چینی انجینئرز کو لے کر جا رہی تھی جو ایک معدنی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ اس حادثے میں دو چینی شہریوں سمیت کم از کم پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ [علی رضا/اے ایف پی]

پاکستان کے سیکیورٹی اہلکار، 11 اگست 2018 کو دالبندین کے علاقے میں خودکش حملے کی جگہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ حملے میں اس بس کو نشانہ بنایا گیا جو ایسے چینی انجینئرز کو لے کر جا رہی تھی جو ایک معدنی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ اس حادثے میں دو چینی شہریوں سمیت کم از کم پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ [علی رضا/اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ "پاکستانی حکومت، اسمبلی اور قومی احتساب بیورو (نیب) [پاکستان کی انسداد بدعنوانی ایجنسی] کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ چین کی بدعنوانی میں شراکت دار ہیں کیونکہ وہ چینی اداروں کی طرف سے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار پر خاموش رہے ہیں۔"

یکطرفہ معاہدے

حسنی کے الزامات ایک بار پھر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت، چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے یک طرفہ مالیاتی معاہدوں کو اجاگر کرتے ہیں، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

حکومتی عہدیداروں اور ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان قرضے اور مالیاتی معاہدے، اس وقت جاری پاکستان کے معاشی بحران کے پیچھے موجود بڑے عوامل میں سے ایک ہیں۔

ضلع چاغی کے علاقے سیندک میں، سیندک کاپر- گولڈ مائن پروجیکٹ 2002 میں میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ (ایم سی سی) کو ٹھیکے پر دیا گیا تھا، جو کہ ریاست کے زیر انتظام چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن کا ذیلی ادارہ ہے۔

گزشتہ سال، اسلام آباد نے ٹھیکے میں مزید 15 سال کی توسیع کر دی، اسے توقع ہے کہ اس وقت تک وسائل کے ختم ہو جائیں گے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کان کنی کے تجزیہ کار ظہیر بلوچ نے کہا کہ "چینی اداروں نے بغیر کسی مقامی، قومی یا بین الاقوامی نگرانی کے، سیندک کانوں سے تانبے اور سونے کے ذخائر نکالے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ چینی اداروں کی طرف سے فنڈز میں غبن کرنے کے بارے میں حسنی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔

بلوچ نے کہا کہ "بلوچستان میں ہر کوئی چینی اداروں کو بغیر کسی احتساب کے، وسائل لوٹنے کی اجازت دینے کی اسلام آباد کی پالیسی پر تنقید کر رہا ہے۔"

مزدوری کے غیر انسانی طریقے

سیندک کے رہائشی بھی اس سے ملتے جلتے خدشات رکھتے ہیں اور انہوں نے ایم سی سی کی طرف سے اختیار کیے جانے والے مشقت کے غیر انسانی طریقوں کے بارے میں شکایت کی ہے۔

فروری 2022 میں کئی دنوں تک، مقامی ملازمین کے خلاف کی جانے والی غیر انسانی کارروائیوں اور سڑکوں، اسکولوں اور دکانوں کی بندش پر، رہائشیوں نے خواتین کی قیادت میں، ایم سی سی کے خلاف ایک بہت بڑا احتجاج کیا تھا۔

اس احتجاج میں حصہ لینے والی ایک گھریلو خاتون زلیخا نے کہا کہ "چینی ادارے نے مقامی باشندوں اور ملازمین کی زندگیوں کو خستہ حال بنا دیا ہے۔"

ان کے شوہر جو کہ سیندک میں کام کرنے والے کان کن ہیں کو، کورونا وائرس وبائی امراض سے منسلک احتیاطی تدابیر کے نام پر، چھ ماہ تک گھر جانے سے روک دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی باشندے علاج کے لیے سیندک ہسپتال تک نہیں جا سکتے تھے۔

پاکستانی لیبر گروپس، طویل عرصے سے چینی اداروں پر، پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی اور بی آر آئی کا حصہ بننے والی جگہوں پر حفاظتی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے، کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

بلوچستان میں، چینی اثر و رسوخ میں انتہائی تیزی سے ہونے والے اضافے -- اس کے ساتھ ساتھ چینی اداروں کی طرف سے، مقامی لوگوں پر اثرات کی پرواہ کئے بغیر، مقامی وسائل سے فائدہ اٹھانے -- نے شدید بدامنی کو جنم دیا ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے، بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے اور سی پیک کی جگہوں کو نشانہ بناتے ہوئے، خطے میں تشدد کو تیز کرنے کی ترغیب دی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500