جرم و انصاف

پاکستانی عدالت نے دھوکہ دہی میں ملوث چینی کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے

از زرق خان

کراچی میں ایک شخص اپنی دکان پر روپے گن رہا ہے۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

کراچی میں ایک شخص اپنی دکان پر روپے گن رہا ہے۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

پاکستان کی ایک عدالت نے رواں ماہ کے شروع میں، چینی کمپنیوں اور فراڈ میں ملوث افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا اختیار دیا تھا۔

کراچی کی ایک احتساب عدالت نے 2 نومبر کو قومی احتساب بیورو (نیب)، جو کہ ملک میں انسدادِ بدعنوانی کا ادارہ ہے، کی جانب سے دو چینی کمپنیوں اور چار افراد کے نو بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی مارچ میں دی جانے والی ایک درخواست منظور کی۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق، کمپنیوں اور مشتبہ افراد نے مبینہ طور پر عوام کو دھوکہ دہی سے 1.1 بلین پاکستانی روپوں (تقریباً 5 ملین ڈالر) سے محروم کر دیا اور اس کے لیے سرمایہ کاری کی فراڈ اسکیموں، بشمول آن لائن پونزی، پیرامڈ اور ملٹی لیول مارکیٹنگ اسکیموں کو استعمال کیا گیا۔

نیب کی تحقیقات، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے درج شکایت کی بنیاد پر کی گئیں۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقاتی رپورٹ کی ایک نقل میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دو چینی کمپنیاں اور چار افراد، جعلی سرمایہ کاری اسکیموں کے ذریعے پاکستانیوں کے ساتھ 1.1 بلین پاکستانی روپوں کا فراڈ کرنے میں ملوث ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقاتی رپورٹ کی ایک نقل میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دو چینی کمپنیاں اور چار افراد، جعلی سرمایہ کاری اسکیموں کے ذریعے پاکستانیوں کے ساتھ 1.1 بلین پاکستانی روپوں کا فراڈ کرنے میں ملوث ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

کراچی میں اگست کے میہنے میں، اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی مسیحی خواتین کی فائل تصویر۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

کراچی میں اگست کے میہنے میں، اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی مسیحی خواتین کی فائل تصویر۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ چینی کمپنیوں نے متاثرین کو منافع بخش مراعات دے کر، رجسٹر کرنے اور بینک اکاونٹس میں رقم جمع کروانے یا ان کے دفاتر میں نقد رقم جمع کروانے پر آمادہ کیا۔

رقم موصول ہونے کے بعد، کمپنیوں نے متاثرین کو ایک شناختی نمبر فراہم کیا جسے وہ مبینہ طور پر فنڈز کے انتظام کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔

کمپنیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جمع کرائے گئے ہر روپے کے بدلے، صارفین کو ورچوئل پوائنٹس دیے جائیں گے اور یہ کہ سرمایہ کاری میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق یہ پوائنٹس بڑھیں گے یا کم ہوں گے۔

چینی فراڈ

مبصرین کا کہنا ہے کہ مشتبہ افراد کا طریقہ کار ان مختلف حربوں میں شامل ہے جو چینی مجرموں نے پاکستانیوں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے نیب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نے بتایا کہ چینی جعلسازوں نے "cn. سے ختم ہونے والی ویب سائٹس کا استعمال کیا ہے، جو چین کا آفیشل ڈومین نام ہے، جس کا انتظام چین کی وزارت صنعت و اطلاعات کی ایک شاخ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستانیوں کو دھوکہ دینے کے لیے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چینی مجرم گروہ، بے گمان پاکستانیوں -- خاص طور پر تاجروں اور طالب علموں -- کو دھوکہ دینے کے لئے، وی چیٹ میسجنگ ایپ اور ای میلز کا استعمال کرتے ہیں اور ان سے لاکھوں روپے کا فراڈ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اب عوام کو ڈیجیٹل خواندگی سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ سائبر جرائم کی مختلف جہتوں سے آگاہ ہو سکیں، بشمول دھوکہ دہی کی سرگرمیوں کے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافے کے پیش نظر، پاکستانی حکومت کو چینی شہریوں کو ویزا جاری کرتے وقت چوکسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

دلہنوں کی اسمگلنگ، اے ٹی ایم سکیمنگ

ماضی قریب میں ہونے والے مختلف اسکینڈلز نے، چینی مجرم گروہوں پر روشنی ڈالی ہے۔

لیکن ایسے حکومتی عہدیداروں کے دباؤ کی وجہ سے، جنہیں خوف ہے کہ بیجنگ کے ساتھ اسلام آباد کے منافع بخش تعلقات کو نقصان پہنچ جائے گا، ان کے زیادہ تر جرائم کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر نہیں کیا گیا ہے۔

2018 سے اب تک، پاکستان نوجوان لڑکیوں کی انسانی اسمگلنگ میں ملوث چینی گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا رہا ہے۔ اس طرح کے گروہ غریب خواتین اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بناتے ہیں -- جو اکثر مسیحی برادری کے ارکان ہوتے ہیں -- انہیں سرحد کے اس پار زیادہ خوشحال زندگی کے جھوٹے وعدوں کے ساتھ بہکایا جاتا ہے۔

اپریل 2019 میں اے آر وائی نیوز کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ چلانے کے بعد "دلہن کی اسمگلنگ" کی طرف توجہ بڑھی جس میں اس نے لاہور کے ایک غیر قانونی رشتہ کروانے والے مرکز میں کئی چینی مردوں کی پاکستانی خواتین -- جن میں دو نوعمر لڑکیاں بھی شامل تھیں -- کے ساتھ تصاویر نشر کیں۔

دسمبر 2019 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیقات کے مطابق، پاکستان بھر سے کم از کم 629 لڑکیوں اور خواتین کو دلہن کے طور پر، چینی مردوں کو فروخت کیا گیا اور انہیں چین لے جایا گیا۔

پولیس نے 2018 میں اے ٹی ایم سکیمنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں متعدد چینی شہریوں کو بھی گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے لاکھوں روپے اور سینکڑوں اے ٹی ایم کارڈ برآمد کئے۔

جس وقت اس اسکیم میں شامل چینی نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا تھا، حکام نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ پاکستانی مجرم، جنہیں چینی گروہوں نے تربیت دی تھی، اے ٹی ایم اسکیمنگ کے اس سے ملتے جلتے ریکیٹ چلا رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500