میڈیا

ٹویٹر نے چین کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے کی مہمات سے منسلک 170,000 اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

اس تصویر میں بیجنگ میں ایک کمپیوٹر سکرین پر ٹویٹر کے لوگو دکھائے گئے ہیں۔ [نکولس اسفوری/اے ایف پی]

اس تصویر میں بیجنگ میں ایک کمپیوٹر سکرین پر ٹویٹر کے لوگو دکھائے گئے ہیں۔ [نکولس اسفوری/اے ایف پی]

جمعہ (12 جون) کو ٹویٹر نے کہا کہ اس نے حکومتِ چین کی غلط معلومات کی مہمات سے منسلک 170,000 سے زائد اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیے ہیں۔

چین، جو کہ خبروں اور معلومات تک رسائی کو مسدود کرنے کے لیے ایک "گریٹ فائروال" کا استعمال کرتا ہے، میں – یوٹیب، گوگل اور فیس بک کے ساتھ ساتھ – ٹویٹر پر پابندی ہے۔

لیکن بیجنگ کے بیانیے کو پھیلانے کے لیے چینی سفارتکاروں اور ریاستی میڈیا نے جوق در جوق ان پلیٹ فارمز کا رخ کیا ہے۔

محققین اور چند مغربی حکومتوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ حکومتِ چین ریاست کی زیرِ نگرانی یا ریاست سے منسلک ایسے اکاؤنٹس کے نیٹ ورکس تعینات کرتی ہے جو حکومتی پیغام یا غلط معلومات پھیلانے کے لیے حقیقی صارفین کے بھیس میں ہوتے ہیں۔

ٹویٹر نے کہا کہ اس نے 23,750 اکاؤنٹس کی ایک "نہایت مصروف کور" کی جانب سے چلائے جانے والے "ریاست سے منسلک" نیٹ ورکس ختم کر دیے ہیں، جنہیں مزید 150,000 "ایمپلی فائر" اکاؤنٹس کی حمایت حاصل تھی۔

یہ نیٹ ورک حال میں ہانگ کانگ سے متعلق بیجنگ کے بیانیے کو پھیلا رہا تھا، لیکن قبل ازاں اس نے کرونا وائرس وبا کے لیے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔

آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ (اے ایس پی آئی) کے سائیبر سنٹر کے ڈائریکٹر فرگس ہینسن نے لکھا، "اگرچہ چین کی اشتراکیت پسند جماعت چینی عوام کو ٹویٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی، تاہم ہمارے تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پراپیگنڈا کرنے اور قصداً غلط معلومات پھیلانے کے لیے اسے استعمال کرنے میں خوش ہیں۔"

اے ایس پی آئی نے کہا کہ اس نیٹ ورک سے زیادہ تر ٹویٹس چین میں کام کے اوقات، بکثرت ہفتہ کے کام کے دنوں کے دروان لکھی گئیں۔

اس میں مزید کہا گیا، "پوسٹنگ کا ایسیا منظم اسلوب واضح طور پر غیر مصدقہ اور مربوط ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔"

جمعہ کو بیجنگ کی وزارتِ خارجہ نے ٹویٹر کے اس فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین "غلط معلومات کا سب سے بڑا شکار" تھا۔

دھوکہ دہی کے بڑھتے ہوئے شواہد

رواں ماہ کے اوائل میں، نیویارک ٹائمز نے 4,600 اکاؤنٹس کا ایک تجزیہ شائع کیا جو ٹویٹر پر چینی قائدین اور سفارت کاروں کے ساتھ مسنلک تھے۔

اخبار نے ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس کا پتہ چلایا جو بظاہر بیجنگ کے اعلیٰ سطحی سفیروں اور ریاست کے زیرِ انتظام خبر رساں اداروں کی حمایت اور انہیں بڑھاوا دینے کے لیے خودمختار طور پر چلائے جا رہے تھے۔

گزشتہ ماہ ٹویٹر نے حکومتِ چین کے ایک ترجمان کی جانب سے لکھی گئی ایک ٹویٹ پر فلیگ چیک لگایا جس میں ایک بدنامِ زمانہ نظریہٴ سازش کو پھیلایا جا رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہامریکی فوج نے چین میں کرونا وائرس متعارف کرایا ہو۔

گزشتہ اگست میں فیس بک، یو ٹیوب اور ٹویٹر نے ہزاروں ایسے اکاؤنٹس ہٹا دیے جن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک چینی پشت پناہی کی حامل مہم کا جزُ تھے جس کا بنیادی ارتکاز ہانگ کانگ کے احتجاج سے متعلق غلط معلومات پھیلانے پر تھا۔

یورپی یونیئن (ای یو) نے بدھ (10 جون) کو یہ الزام لگاتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی کہچین اور روس کی حکومتوں نے وبا کے دروان یورپی جمہوریت کی بیخ کنی کرنے اور "اثر پذیری کے ٹارگٹڈ آپریشنز اور غلط معلومات کی مہمات" کے ذریعے اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کی ہے۔

یہ غیر معمولی طور پر واضح الزام یورپی یونیئن کے ایک باقاعدہ سٹریٹیجی پیپر میں اس امر سے نمٹنے کے لیے لگایا گیا جس سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ وہکرونا وائرس کے گرد نگہداشت صحت کے جھوٹے دعووں، نظریاتِ سازش، فراڈ اور نفرت انگیز تقاریر کا ایک "سیلاب" ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500